تحفظ ماحول کی لگن، ’گرین کلیساؤں‘ کی تعداد میں اضافہ
23 جنوری 2020ایک وقت تھا، جب کوپن ہیگن کے مشہور زمانہ چرچ ’بیلا ہائے کرکے‘ کو سجانے کے لیے کینیا کے خاص گلاب اور گل لالہ منگوائے جاتے تھے۔ لیکن اب ایسا نہیں کیا جاتا۔ اس کی وجہ اس چرچ کی طرف سے اٹھائے جانے والے ماحول دوست اقدامات ہیں۔
اب اس چرچ کی زیبائش کے لیے مقامی اور موسمیاتی پھولوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ’بیلا ہائے کرکے‘ میں اب ہر چیز ری سائیکل کی جاتی ہے۔ کاغذ سے لے کر کپڑوں اور موم بتیوں تک۔ یہ پیش رفت اس تحریک کا حصہ ہے، جس کا مقصد چرچوں کو زیادہ ماحول دوست بنانا ہے۔
باقاعدگی سے 'بیلا ہائے کرکے‘ نامی چرچ جانے والی ہانا شمٹ کا کہنا ہے کہ 'ہمیں (ماحولیاتی) بحران کا سامنا ہے۔ تو ہمیں اس حوالے سے کیا کرنا چاہیے؟‘ اس کا جواب ان کے لیے یہی تھا کہ ڈنمارک کی 'گرون کرکے‘ (گرین چرچ) اسکیم میں شمولیت۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر شمٹ کی خدمات قابل تحسین ہیں۔
ڈینش نیشنل کونسل آف چرچ کی طرف سے شروع کی جانے والی اس اسکیم کا مقصد سکینڈے نیویا کے چرچوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے کہ وہ ضرر رساں سبز مکانی (کاربن) گیسوں کے اخراج کی روک تھام کے لیے ٹھوس حکمت عملی اپنائیں۔
اس اسکیم کا حصہ بننے کی خاطر کسی بھی چرچ کو اڑتالیس نکات پر مبنی معیارات میں سے کم از کم پچیس نکات پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے۔ ان ماحول دوست معیارات میں توانائی کے استعمال میں کمی، نامیاتی کوڑے کو الگ ٹھکانے لگانا، سفر کم کرتے ہوئے اسکائپ پر میٹنگز کرنا اور چرچ سروس کے دوران تحفظ ماحول کے حوالے سے وعظ دینا بھی شامل ہے۔
وقت کی اہم ضرورت
'گرون کرکے‘ نے تحفظ ماحول کی خاطر یہ اسکیم سن دو ہزار آٹھ میں شروع کی تھی۔ اس کے روح رواں لوتھرن پاسٹر کیلڈ بالمر ہانسین ہیں۔ انہوں نے تحفظ ماحول کی خاطر اقدامات دینیاتی بنیادوں پر لیے۔ وہ کہتے ہیں، ''یہ زمین خدا کا دیا ہوا تحفہ ہے، ہمیں چرچ میں اس بارے میں لازمی طور پر بات کرنا چاہیے‘‘۔
سن دو ہزار نو میں اقوام متحدہ کی تحفظ ماحول سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس COP15 کا انعقاد کوپن ہیگن میں ہوا تھا، جس کے بعد پاسٹر ہانسین کی اس اسکیم کو زیادہ پذیرائی حاصل ہونا شروع ہو گئی۔
پاسٹر ہانسین کا کہنا ہے کہ بالخصوص یورپی ممالک میں خدا پر یقین رکھنے والے افراد میں ماحولیاتی بحران کے بارے میں زیادہ احساس پیدا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر جون سن دو ہزار انیس میں پوپ فرانسس نے 'گلوبل کلائمٹ ایمرجنسی‘ کا اعلان کر دیا تھا۔
اس وقت ڈنمارک میں گرین چرچوں کی تعداد دو سو بتیس ہو چکی ہے۔ ان میں سے بتیس کلیسا سن دو ہزار انیس میں ہی اس اسکیم کا حصہ بنے۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں یہ اضافہ سولہ فیصد زیادہ تھا۔ 'بیلا ہائے کرکے‘ بھی اگست سن دو ہزار انیس میں اس اسکیم کا حصہ بنا تھا۔ 'بیلا ہائے کرکے‘ گرین چرچ کے اڑتالیس میں سے انتالیس معیارات پر عمل پیرا ہے۔
عمل کرنا بھی ضروری ہے
ہانا شمٹ کے بقول کچھ لوگوں کے لیے باعث حیرت ہو گا کہ چرچ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے سرگرم ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی وہ کہتی ہیں، '' لیکن ہم صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہ سکتے۔‘‘
ہانسین بھی مذہبی بنیادوں سے ہٹ کر عملی بنیادوں پر بھی تحفظ ماحول کی بات کرتے ہیں، ''ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اچھی طاقتیں اس ایجنڈے پر متحد ہو جائیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی تحریکیں اب جرمنی، ناروے، سویڈن اور برطانیہ میں بھی شروع ہو چکی ہیں۔
کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ چرچ کی طرف سے اس طرح کے اقدامات دینیاتی بنیادوں پر تو اہم ثابت ہو سکتے ہیں لیکن عملی دنیا میں اس کا زیادہ فائدہ نہیں۔ تاہم ہانسین کو یقین ہے کہ چرچ کی طرف سے ماحولیاتی بحران کی سنجیدگی کو قبول کرنے سے حقیقی معاشرے میں بھی اس کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔