ترک ریفرنڈم: نتائج قانوناﹰ کتنے درست ہیں؟ ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
17 اپریل 2017اس ریفرنڈم کا مقصد عوام کی اکثریتی تائید سے یہ منظوری لینا تھا کہ ترک جمہوریہ کو ایک پارلیمانی جمہوری نظام کے بجائے صدارتی جمہوری نظام والی ریاست بنا دیا جائے۔ سربراہ مملکت کے طور پر صدر رجب طیب ایردوآن اور ان کی پارٹی کی قائم کردہ ملکی حکومت بھی یہی چاہتے تھے کہ اس ریفرنڈم کا نتیجہ ’ہاں‘ میں نکلے۔ ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق ترک رائے دہندگان نے معمولی اکثریت سے ایردوآن کے ان ارادوں کی تائید کر دی۔
جرمنی میں آباد ترک نژاد باشندوں میں سے ووٹ دینے کے اہل ترک شہریوں کی اکثریت نے بھی اس ریفرنڈم میں پوچھے گئے سوال کا جواب ’ہاں‘ میں دیا۔ لیکن ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اس ریفرنڈم کے جو نتائج نکلے ہیں، انہیں قانونی حوالے سے کس قدر جائز اور درست قرار دیا جا سکتا ہے۔
آئینی ریفرنڈم: ایردوآن کا فتح کا اعلان، اپوزیشن کا احتجاج
ترک ریفرنڈم: حکومتی نظام کی تبدیلی کے حامیوں کی سبقت
یہ نتائج قانون کا مکمل احترام کرتے ہوئے اور سیاسی جمہوری تقاضوں پر پوری طرح عمل پیرا ہوتے ہوئے حاصل نہیں کیے گئے۔ اس لیے کہ جو اپوزیشن کے سیاسی کارکنوں کو گرفتار کرتا ہو، دوسروں کو سیاسی اجتماعات کے انعقاد سے روک دے، صحافیوں کو خاموش کرانے کی کوشش کرے، وہ یہ دعویٰ تو کر ہی نہیں سکتا کہ اس کے ایسے اقدامات کی کوئی جمہوری اور انہیں درست ثابت کر دینے والی وجوہات بھی ہیں۔
ترکی میں صدر ایردوآن نے بھی بالکل ایسا ہی کیا تھا۔ پھر نتائج بھی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس ریفرنڈم کی عوامی منظوری معمولی اکثریت سے دی گئی۔ اس لیے ان نتائج کو مستقبل میں ترک صدر کے اختیارات کے تعین کے لیے عوامی رائے کے آزادانہ اظہار سے حاصل ہونے والا نتیجہ تو نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے برعکس اس عمل کے لیے شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک جمہوری ریاست پر بالآخر طاقت سے قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
جرمنی میں معلومات تک آزادانہ رسائی
ترکی میں ماضی قریب میں نظر آنے والے حالات کے برعکس جرمنی میں صورت حال مختلف ہے۔ جرمنی میں مقیم ترک نژاد باشندوں میں سے اپنے آبائی وطن میں اس ریفرنڈم میں ووٹ دینے کے اہل قریب ڈیڑھ ملین ترک شہریوں کو خود کو آزادانہ طور پر باخبر رکھنے کی مکمل آزادی تھی اور ہے اور انہوں نے تمام اہم ترک سیاسی جماعتوں کی طرف سے منعقد کردہ اجتماعات میں بھی حصہ لیا۔
ترکی میں ریفرنڈم شروع، ’فیصلے کا دن‘
یورپی یونین سے تعلقات پر نظر ثانی ضروری، ترک صدر ایردوآن
ترکی میں آئینی ریفرنڈم: حقائق، جو آپ کو جاننے چاہییں
اس دوران ہر کسی کو اپنی رائے کے اظہار کی پوری آزادی تھی اور کسی کو یہ خطرہ نہیں تھا کہ اسے ترکی میں مستقبل کے طاقت ور حکمران کے طور پر کسی فرد واحد کے خلاف اپنے رائے کے اظہار پر جیل بھیج دیا جائے گا۔
جرمنی میں آباد ترک شہریوں میں سے جن ووٹروں نے اس ریفرنڈم میں اپنا ووٹ کا حق استعمال کیا، ان میں سے 63 فیصد سے زائد نے رجب طیب ایردوآن کی سیاسی سوچ کی حمایت کی۔ یوں ترک ریاستی نظام میں تبدیلی کے حامی اور جرمنی میں آباد ایسے ترک شہریوں کی مجموعی تعداد قریب ساڑھے چار لاکھ بنتی ہے۔
جرمنی میں ووٹ دینے کے حق دار ترک شہریوں میں اس ریفرنڈم میں شرکت کا تناسب صرف 50 فیصد رہا۔ لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جرمنی اور آسٹریا جیسے یورپی یونین کے رکن ملکوں میں ترک شہریوں کی اکثریت نے ایردوآن کی سیاسی سوچ کی تائید کی ہے، تو اس کے اسباب کیا ہیں؟
جہاں تک ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت دینے کی بات ہے تو اس سلسلے میں انقرہ اور برسلز کے مابین بات چیت برسوں سے جاری ہے۔ ترک صدر ایردوآن گزشتہ کچھ عرصے میں کافی حد تک یورپی یونین کے خلاف عملی اور ذہنی رویے اپنا چکے ہیں۔
اس لیے انقرہ اور برسلز کے مابین سالہا سال کے مذاکرات کے سلسلے میں یورپی یونین کو بھی اب ترکی کے بارے میں کوئی واضح اور فیصلہ کن موقف اپنانا چاہیے۔ ترکی کو یونین کی رکنیت دی جانا چاہیے یا نہیں، اس بارے میں کوئی بھی فیصلہ ہر طرح کی عوامیت پسندانہ سوچ سے ہٹ کر اور مکمل ایمانداری سے کیا جانا چاہیے۔
جہاں تک معاشی شعبے میں کیے جانے والے دعووں کی بات ہے تو یہ واضح ہے کہ یورپ کو اقتصادی طور پر ترکی کی ضرورت اتنی زیادہ نہیں جتنی زیادہ ترک معیشت کو یورپ کی ضرورت ہے۔ اس عمل میں بھی یورپی اور ترک فریقین کے لیے ان عوامیت پسندوں سے بچنا بہت ضروری ہو گا، جو اپنی کامیابی کے لیے بے یقینی اور عدم تحفظ کی فضا کو ہوا دیتے ہیں۔