ترکی میں آئینی تبدیلیوں کے لئے ریفرنڈم، حکومت کی جیت
13 ستمبر 2010یورپی یونین اور امریکہ نے ترکی میں آئینی اصلاحات کے لئے کرائے ریفرنڈم کا خیر مقدم کیا ہے۔ اُدھر اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اسلامی نظریات رکھنے والی حکمران جماعت عدلیہ پر اپنا اختیار خطرناک حد تک بڑھانا چاہتی ہے۔
قبل ازیں رائے عامہ کے ایک جائزے میں بھی حکمران جماعت کو ریفرنڈم کی فاتح قرار دیا گیا تھا، جو یورپی یونین میں شمولیت کے لئے آئینی اصلاحات کو ناگزیر قرار دیتی ہے۔ انقرہ حکام کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات ملک میں جمہوری استحکام کے لئے بھی ضروری ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جمہوریت مضبوط ہوئی تو ترکی کے یورپی یونین میں شامل ہونے کے راستے کی رکاوٹیں دُور ہو جائیں گی۔
آئین میں مجوزہ تبدیلیوں کے نفاذ کے بعد آئینی ڈھانچہ یورپی یونین کے مطابق ہو جائے گا۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان اصلاحات کے ذریعے حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) کا عدلیہ میں دخل بڑھ جائے گا۔
اُدھر ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوآن نے کہا ہے، ’ہم نے جدید جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لئے ایک تاریخی دہلیز عبور کر لی ہے۔‘
خیال رہے کہ اردوآن کی حکمران جماعت خود کو یورپ کی کرسچن پارٹیوں کا مسلم رُوپ قرار دیتی ہے جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس پارٹی کا ایک پوشیدہ مسلم ایجنڈا ہے۔ ان کی رائے میں یہ جماعت ملک کو اسلام پسندی کی جانب لے جا رہی ہے۔
ترکی میں آئندہ برس عام انتخابات کا انعقاد کیا جا رہا ہے، اور اے کے پی تیسری مرتبہ برسراقتدار آنے کی کوشش کرے گی۔
ترکی کے صدر عبداللہ گُل نے بھی اپنی قوم سے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’آنے والے کل سے ترکی کو متحد ہونے اور مستقبل میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ جمہوری نظام میں حرف آخر کا حق عوام کو حاصل ہے۔ انہوں نے کہا، ’میں سب کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ریفرنڈم کے نتائج کو احترام سے قبول کریں۔’
انتخابات سے پہلے کرائے گئے رائے عامہ کے جائزے میں 56.8 فیصد افراد نے آئینی اصلاحات کے اس حکومتی منصوبے کی حمایت کی تھی۔ تاہم اس سروے میں 17.6 فیصد نے کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: افسر اعوان