ترکی میں پھر شک کی بنیاد پر برطرفیاں
22 نومبر 2016ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر رجب طیب ایردوآن کی جانب سے جاری کیے جانے والے ہنگامی حکم نامے کے بعد کم از کم دس ہزار افراد کو ان کی نوکریوں سے فارغ کیا گیا۔ اس کے علاوہ سماجی بہبود اور ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے تقریباً پانچ سے زائد اداروں کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں انقرہ حکومت یورپی یونین اور دیگر کئی ممالک کی تنقید کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ ملک کی مخلتف وزارتوں میں سے بھی متعدد ملازمین کو نکالے جانے کے احکامات بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔
جولائی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی تھی اور اب صدر ایردوآن کی جانب سے ہی براہ راست فرمان جاری کیے جاتے ہیں۔ ہنگامی حالت کے نفاذ میں ایک مرتبہ توسیع کی جا چکی ہے اور اگلے برس جنوری کے وسط میں اس کی مدت ختم ہو رہی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پندرہ جولائی کے بعد سے اب تک ایک لاکھ دس ہزار سرکاری ملازمین کو فارغ کیا چکا ہے جبکہ کئی ہزار اس وقت زیر حراست ہیں۔ ان میں تعلیمی شعبے کے 942 اعلٰی حکام اور 119 اساتذہ بھی شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افراد کو فتح اللہ گولن کی خدمت تحریک سے مبینہ روابط کی وجہ سے عتاب کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ بہت سے افراد پر کالعدم کردستان ورکرز پارٹی سے تعلق کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
اس دوران یورپی پارلیمان میں آج اس موضوع پر بحث ہو رہی ہے کہ ترکی میں رونما ہونے والے واقعات کے بعد آیا ترکی کو یورپی یونین میں شامل ہونے کے موضوع پر جاری مذاکرات ختم کر دیے جائیں۔ ان مذاکرات کا آغاز 2005ء میں کیا گیا تھا اور ایک طویل عرصے سے ان میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ انقرہ حکومت نے اس مقصد کے لیے اگلے برس ایک ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا ہے، جس میں ترک عوام سے ان مذاکرات کو جاری رکھنے یا ختم کرنے کے بارے میں پوچھا جائے گا۔