تشکیل کائنات کے راز سے پردہ اٹھنے کو ہے
13 جون 2010ان سائنسدانوں کے مطابق یہ اہم کامیابی دراصل ایک ایسے ایٹمی ذرے یعنی نیوٹرینو کی دریافت ہے جو اپنی حالت یا ہیئت تبدیل کر لیتا ہے۔ نیوٹرینو دراصل ان بنیادی ذرات میں سے ایک ہے، جن سے مل کر ایک ایٹم بنتا ہے۔
سائنسدانوں کے تشکیل کائنات کے معمے کی اہم کڑی تلاش کر لینے کے اس دعوے کی بنیاد دراصل اٹلی میں قائم گران ساسو لیبارٹری میں کئے جانے والے مشاہدات ہیں۔ یورپی نیوکلیائی تحقیقی ادارے سرن (CERN) کے محققین کے مطابق یہ دریافت دراصل کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانے کے لئے سرن میں بنائے گئے دنیا کے سب سے بڑے پارٹیکل کولائیڈر LHC یعنی لارج ہاڈران کولائیڈر کی ایک عظیم کامیابی ہے۔
گران ساسو ریسرچ سینٹر کے ماہرین طبیعات تین برس سے زمین تک پہنچنے والے اربوں میویون یعنی بنیادی نیوٹرینو ذرات کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ انہی مشاہدات کے دوران انہیں ایک نیوٹرینو ملا جو میویون سے ٹاؤ یعنی غیر مستحکم نیوٹرینو میں تبدیل ہوسکتا ہے۔
ان سائنسی نظریاتی اصلاحات کے پیچھے دراصل وہ نظریہ تھا کہ جس کے مطابق کائنات کے بنیادی عنصر کی تشکیل میں اہم نیوٹرینو کی تین مختلف اقسام گرگٹ کی طرح اپنی ہیئت تبدیل کر سکتی ہیں۔ تاہم اس نظریے کو ثابت کرنے کے لئے کوششیں طویل عرصے سے جاری تھیں۔
سائنسدانوں کے مطابق یہ دریافت انتہائی اہم ہے کیونکہ اس کے ذریعے گزشتہ 80 برس سےجواب طلب اس حقیقت کا جواب ملنے کی امید پیدا ہو گئی ہے کہ سورج سے زمین تک پہنچنے والے نیوٹرینوز کی تعداد اس اندازے سے بہت کم کیوں ہوتی ہے، جو طبیعاتی قوانین کے مطابق ہونی چاہیے۔
نیوٹرینو کی ہیئت تبدیل ہونے کا مفروضہ دراصل 1960ء کی دہائی میں دو روسی سائنسدانوں کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔ اب اس مفروضے کے ثابت ہونے کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ دیگر طرح کے نیوٹرینو بھی موجود ہوسکتے ہیں مگر ان کا ابھی تک کھوج نہیں لگایا جاسکا۔
سائنسدانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اس دریافت سے فرضی سیاہ مادے یعنی ڈارک مَیٹر کے وجود کے بارے میں بھی تفصیلات ملیں گی، جس پر سائنسی مفروضوں کے مطابق کائنات کا ایک چوتھائی حصہ مشتمل ہے۔ یورپی نیوکلیائی تحقیقی ادارے سرن کے ترجمان جیمز گیلیز کے مطابق یہ دریافت حیرت انگیز ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طبیعات کے بنیادی یا معیاری اصولوں سے ہٹ کر بھی چیزیں رونما ہو سکتی ہیں۔
ڈارک مَیٹر کے وجود کو ثابت کرنا دراصل سرن میں تیار کئے گئے لارج ہاڈران کولائیڈر کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔
گران ساسو لیبارٹری کی ڈائریکٹر لوسیا ووٹانو کے مطابق اس دریافت کے ساتھ ان کے ادارے کا پہلا مقصد حاصل ہوگیا ہے۔ اس ادارے کے محققین کو امید ہے ٹاؤ نیوٹرینو کی دریافت کے بعد مزید ایسے نیوٹرینو کا کھوج ملے گا جو اپنی ہیئت تبدیل کر سکتے ہوں۔
نیوٹرینو کے طرز عمل پر تحقیقی کام پہلے ہی نوبل انعام حاصل کر چکا ہے جو کہ امریکی سائنسدان رے ڈیوس کے حصے میں آیا، جنہوں نے پہلی مرتبہ 1960ء میں یہ پتا چلایا کہ سائنسی مفروضوں کے برعکس سورج سے زمین تک پہنچنے والے نیوٹرینوز کی تعداد بہت محدود ہوتی ہے۔
رے ڈیوس کوسال 2002ء میں 87 برس کی عمر میں ان کے ساتھی محقق ریکارڈو گیاکونی اور جاپانی ماہر طبیعات ماساٹوشی کے ساتھ مشترکہ طور پر نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ رے ڈیوس کا 2006ء میں انتقال ہوا۔
رپورٹ : افسر اعوان
ادارت : مقبول ملک