تقریباً 300 کرد باشندوں کا اغوا، النصرہ فرنٹ پر شبہ
6 اپریل 2015یورپ میں شامی کردوں کی مرکزی سیاسی جماعت ڈیموکریٹک یونین پارٹی نے بھی اغوا کی اس خبرکی تصدیق کر دی ہے۔کردش ڈیموکریٹک یونین پارٹی کے ترجمان نواف خلیل نے بتایا کہ تقریباً 300 افراد کا ایک قافلہ پانچ بسوں پر سوار ہو کر عَفرین سے حلب کی جانب روانہ تھا۔ ترجمان کے مطابق عفرین قصبےکے کرد اپنی تنخواہیں لینے حلب جا رہے تھے کہ انہیں ایک چیک پوائنٹ پر روک کر اغوا کیا گیا۔ عَفرین کے مقامی صحافی علی عبدالرحمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ اغوا کاروں نے خواتین کو چھوڑ کر تمام مردوں اور بچوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
علی عبدالرحمان کے مطابق کرد باشندوں کا اغوا الدانا کے مقام پر ہوا اور یہ النصرہ فرنٹ کے کنٹرول کا علاقہ ہے۔ النصرہ فرنٹ بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے وابستگی رکھتا ہے۔ عفرین کے صحافی کا خیال ہے کہ کردوں کو النصرہ فرنٹ کے جہادیوں نے ہی اغوا کیا ہے لیکن وہ وثوق سے کہنے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح شام کے حالات و واقعات پر نگاہ رکھنے والی غیرسرکاری تنظیم سیرین آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے بتایا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ اغواکاروں کا تعلق کس جہادی گروپ سے ہے۔
سیرین آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے بھی اِس کی تصدیق کی ہے کہ خواتین کو رہا ضرور کیا گیا ہے لیکن مغویوں کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں ہے۔ آبزرویٹری کے مطابق اغواکاروں نے عَفرین کے قصبے میں مقید اپنے تین افراد کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ کردوں کے اغوا کا مقام اِدلِب شہر کے شمال مغرب میں بنتا ہے اور اِس شہر کے گردو نواحی بستیوں اور قصبوں میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران النصرہ فرنٹ اور اُس کے اتحادی گروپوں نے خاصا زور پکڑا۔ اِدلِب پر انہی جہادیوں نے اٹھائیس مارچ کو قبضہ بھی کر لیا تھا۔
ترک سرحد پر واقع کوبانی شہر کے ایک کرد اہلکار ادریس نَسان نے بتایا کہ کردوں کے اغوا کی واردات اتوار کی شام میں ہوئی تھی اور یہ لوگ کرد کنٹرول کے قصبے عَفرین سے حلب اور دمشق جا رہے تھے کہ تُوقاد کے گاؤں کے قریب ان کو روک لیا گیا۔ تُوقاد کا گاؤں حلب شہر سے بیس کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ نَسان کے مطابق خواتین اور بچوں کو بسوں سے باہر نکال کراغواکار تین سو کے قریب مختلف عمر کے مردوں کو بسوں سمیت الدانا قصبے کی جانب لے کر گئے ہیں اِدریس نَسان نے اغوا کاروں کو النصرہ فرنٹ کے جہادی قرار دیا ہے۔ یہ اہم ہے کہ واردات کے ارد گرد کے تمام علاقے النصرہ فرنٹ کے جہادیوں کے کنٹرول میں ہیں تاہم ابھی تک اِن افراد کے اغوا کی ذمہ داری النصرہ فرنٹ نے قبول نہیں کی ہے۔