توہین مذہب کے قوانین کا بڑھتا ہوا استعمال، پاکستان سرفہرست: رپورٹ
14 مارچ 2014جمعرات کو جاری کردہ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں شہریوں کی سب سے زیادہ تعداد کو مذہب کی مبینہ توہین کے الزام میں جیلوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ واشنگٹن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی ایک ایسا ادارہ ہے، جو امریکی حکومت کی مشاورت کا کام بھی کرتا ہے۔
اس کمیشن نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ توہین مذہب پر پابندی کے قوانین کے عدالتی استعمال میں اضافے کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ایسے لوگوں کو سنائی جانے والی سزاؤں میں اضافہ ہو رہا ہے جو محض اپنے اپنے معاشروں میں اکثریتی آبادی سے مختلف مذہبی سوچ کا اظہار کرتے ہیں یا جن کے خلاف توہین مذہب کے جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایسے متنازعہ قوانین کا عدالتی استعمال اتنا زیادہ کیا جاتا ہے کہ اس عمل کا موازنہ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس دستاویز میں اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں توہین اسلام کے مبینہ جرم میں اس وقت 14 افراد ایسے ہیں جنہیں موت کی سزا سنائی جا چکی ہے اور وہ اپنی سزاؤں پر عملدرآمد کے انتظار میں ہیں۔ اس کے علاوہ کم از کم 19 افراد ایسے بھی ہیں جو توہین اسلام کے جرم میں عمر قید کی سزائیں کاٹ رہے ہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستان میں آج تک توہین مذہب کے مرتکب کسی بھی سزا یافتہ مجرم کو سنائی گئی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ باعث تشویش ہے کہ مبینہ ملزمان کے خلاف اس قانون کے استعمال اور اس کے استعمال میں محفوظ اور منصفانہ عدالتی کارروائی کو یقینی بنانے والے اقدامات کے فقدان کے باعث پاکستانی اقلیتوں پر اکثریتی آبادی کے افراد کے مشتعل ہجوم کی شکل میں کیے جانے والے حملوں کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
اسی طرح مصر میں بھی 2011ء میں صدر حسنی مبارک کی معزولی کے بعد سے توہین مذہب سے متعلق ایسے قوانین کے عدالتی استعمال کی شرح میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی رپورٹ میں سرگرم مقامی کارکنوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ 2011ء میں مصر میں توہین مذہب سے متعلق قوانین کے تحت مقدمات کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد 63 رہی جبکہ 2012ء میں شمالی افریقہ کی اس عرب ریاست میں مسیحی اقلیت کو غیرمتناسب حد تک زیادہ واقعات میں حملوں اور مقدمات کا نشانہ بنایا گیا۔
امریکا کا یہ کمیشن کسی بھی ملک میں توہین مذہب کی ممانعت کرنے والے قوانین کی اس لیے مخالفت کرتا ہے کہ اس کے مطابق ایسے قوانین کے ذریعے ’عقائد کی حفاظت کو انسانوں اور انسانی زندگیوں پر ترجیح‘ دی جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق توہین مذہب اکثر اسلامی ملکوں میں ایک بڑا حساس معاملہ ہے اور سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا میں 2003ء سے آج تک 120 سے زائد افراد کو توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ایسے قوانین کے استعمال کی مغربی ملکوں میں بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔ یونان میں 2012ء میں ایک شخص کو توہین مذہب کے الزام میں اس لیے گرفتار کر لیا گیا کہ اس نے مبینہ طور پر ایک آنجہانی آرتھوڈوکس مسیحی مذہبی شخصیت کا سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ فیس بک پر مذاق اڑایا تھا۔