تیونس میں معتدل اسلامی سیاسی جماعت کی معمولی برتری
24 اکتوبر 2011شمالی افریقی ملک تیونس پر دہائیوں تک حکمرانی کرنے والے زین العابدین بن علی کا تختہ الٹنے کے نو ماہ بعد یہ انتخابات عمل میں آئے۔ تیونس ہی میں خودسوزی کرنے والے ایک سبزی فروش سے متاثر ہوکر ان دنوں شام اور یمن میں حکومت مخالف تحریکیں زوروں سے جاری ہیں جبکہ مصر اور لیبیا میں حکومت مخالفین کو کامیابی مل چکی ہے۔
ابتدائی اندازوں کے مطابق معتدل اسلامی نظریات کی حامل سیاسی جماعت النہضہ کو دیگر جماعتوں پر برتری حاصل ہے۔ اس جماعت کے رہنما راشد الغنوشی نے دارالحکومت میں اپنی بیگم اور بیٹی کے ہمراہ ووٹ ڈالنے کے بعد کہا، ’آج تاریخی دن ہے، آج تیونس کا جنم ہوا، آج ’عرب اسپرنگ ‘ کا جنم ہوا‘۔
الغنوشی کے سکیولر مخالفین نے ان کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ انہیں خدشہ ہے کہ اسلامی سیاسی جماعت کے عروج سے تیونس میں معتدل نظریات دب جائیں گے۔ یاد رہے کہ تیونس فرانسیسی نو آبادی رہی ہے اور یہاں مغربی ثقافت کے آثار خاصے گہرے ہیں۔
راشد الغنوشی اپنی جماعت کو نظریاتی طور پر ترکی میں برسراقتدار معتدل اسلامی سیاسی جماعت سے جوڑتے ہیں۔ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ لندن میں جلاوطنی میں گزارنے والے الغنوشی نے کہا ہے کہ وہ تیونس میں جبری طور پر اسلامی اقدار نافذ نہیں کریں گے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے النہضہ کے ایک نوجوان حامی ووٹر مکرم سے ان کی رائے پوچھی تو انہوں نے جواب دیا، ’میں نے آج صبح النہضہ کو ووٹ دیا اور اب شام کو ایک شراب خانے میں جاکر بیئر پیوں گا‘۔
انتخابات کا انعقاد کرنے والے خود مختار کمیشن کے مطابق رجسٹرڈ 41 لاکھ میں سے 90 فیصد شہریوں نے انتخابی عمل میں حصہ لیا۔ بن علی کے دور میں کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں شہریوں نے ووٹ نہیں ڈالا، جس کی ایک وجہ تبدیلی کی امید کا نہ ہونا بتایا جاتا تھا۔
انتخابات کے نتیجے میں وجود پانے والی اسمبلی نیا آئین تشکیل دے گی اور عبوری حکومت کے تحت نئے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات منعقد کروائے گی۔ نتائج کا حتمی اعلان ایک یا دو روز میں کر دیا جائے گا البتہ النہضہ کو معمولی برتری ملنے اور مخلوط حکومت کے قیام کے امکانات روشن ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ