جاپانی آبادی کم ہو کر پھر پندرہ سال پہلے جتنی
18 اپریل 2015فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ٹوکیو سے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ سرکاری بیانات کے مطابق ہر چار میں سے ایک شخص بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ تعداد میں جاپانی باشندے پینسٹھ برس یا اس سے زیادہ کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔
جمعہ سترہ اپریل کو جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس یکم اکتوبر کو جاپان کی آبادی بارہ کروڑ ستر لاکھ 83 ہزار ریکارڈ کی گئی تھی اور یہ کہ اس میں 0.17 فیصد یا دو لاکھ پندرہ ہزار کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس تعداد میں طویل عرصے سے جاپان میں مقیم غیر ملکیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
ان تازہ اعداد و شمار کے مطابق پینسٹھ برس یا اس سے زیادہ عمر کے جاپانی شہریوں کی تعداد ایک اعشاریہ ایک ملین کے اضافے کے ساتھ بڑھ کر 33 ملین ہو گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ تعداد چَودہ سال یا اس سے کم عمر کے جاپانیوں سے تقریباً دگنی ہے۔
جاپانی آبادی میں نظر آنے والی اس تبدیلی کی وجہ ایک طرف پیدائش کی کم شرح ہے جبکہ دوسری جانب جاپانی شہریوں کی اوسط عمروں میں بھی اب اضافہ ہو چکا ہے۔
جاپان کی آبادی میں عمر رسیدہ شہریوں کی تعداد میں یہ بے پناہ اضافہ پالیسی سازوں کے لیے ایک بڑا دردِ سر بنا ہوا ہے۔ اُنہیں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ کیسے کام کرنے کے قابل نوجوان جاپانیوں کی مسلسل کم ہوتی ہوئی تعداد پنشن یافتہ شہریوں کی ضرورتوں کو پورا کرے۔
جاپان میں بیرونِ ملک سے جا کر کام کرنے والوں کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ بارہا ایسی تجاویز سامنے آئی ہیں کہ باہر سے نوجوان لوگوں کو جاپان لایا جائے تاکہ وہ آبادی میں پیدا ہونے والے خلاء کو پُر کر سکیں تاہم ایسی تجاویز پر ہر بار جاپانی عوام کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔
اندازہ لگایا گیا ہے کہ جاپان کی آبادی میں کمی کی رفتار یہی رہی، تو سن 2060ء تک جاپانی شہریوں کی تعداد محض 86.7 ملین رہ جائے گی۔ ٹوکیو حکومت نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تب پینسٹھ برس یا اس سے زیادہ عمر کے جاپانیوں کی تعداد جاپان کی مکمل آبادی کے تقریباً چالیس فیصد تک پہنچ جائے گی۔